بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

دارالافتاء

 

مکمل اختیار دیے بغیر جائیداد کسی کے نام کرنے کا حکم


سوال

ہم دو بھائی ہیں،ہمارے والد مرحوم نے اپنی زندگی میں ہم دونوں کو بھائیوں کے نام مکان تحفتًا دے دیا تھا،یہ مکان 216 گز پر مشتمل ہے،اور مشترکہ پراپرٹی ہے،اور ہم دونوں بھائیوں کے نام پر ہے،چھوٹے بھائی کے حصہ میں دو دکانیں بھی ہیں،میں نے ان سے مکان فروخت کرنے کا کہا کہ یا یہ مکان آپ خرید لیں یا میرا حصہ مجھے دے دیں،تاکہ یہ کام میری زندگی میں ہو جائے تو بہتر ہوگا،مگر ان کا کہنا ہےکہ نہ میں یہ مکان فروخت کروں گا اور نہ آپ کو فروخت کرنے دوں گا،اور نہ میں آپ کو آپ کا حصہ دوں گا،جیسے رہتے ہو ایسے رہتے رہو۔

معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

تنقیح:

مذکورہ مکان میں والد مرحوم انتقال تک خود رہائش پذیر تھے،اور دو دکانیں جو چھوٹے بھائی کے حصہ میں ہیں،اس کے اوپر مکان بناہوا ہے،یہ مکان کے نیچے ہیں،والد مرحوم کے مذکورہ دو بیٹوں کے علاوہ مرحوم کے اور ورثاء بھی ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کے والد مرحوم انتقال تک خود اس مکان میں رہائش پذیر رہے،تو اپنی زندگی میں یہ مکان دو بیٹوں کے نام کرنےسےیہ دونوں بیٹے شرعاًاس مکان کے مالک نہیں بنےتھے یہی حکم مکان کے نیچے  دونوں دکانوں کا بھی ہے یعنی اگر دکانیں بھی والد کے قبضہ میں تھیں تو مکان اور دکانیں والد مرحوم کی ملکیت تھیں ان کے انتقال کے بعد یہ ان کا ترکہ شمار ہوگا،اور ان کے تمام  شرعی ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگا۔

نیز مرحوم کے ایک بیٹے کا مذکورہ مکان پر قبضہ کرکے دوسرے بیٹے کا تقسیم کے مطالبہ کرنے کے باوجود تقسیم نہ کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،بلکہ اس پر لازم ہے کہ مذکورہ مکان سے اپنا قبضہ ختم کرکے تمام شرعی ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے مطابق تقسیم کرے۔

الفتاوی التاتار خانیةمیں ہے:

"وفي الذخیرۃ، وفي المنتقی: عن أبي یوسف: لایجوز للرجل أن يهب لامرأته ، وأن تهب لزوجھا أو لأجنبي دارا وهما فیھا ساکنان، وکذلک الھبة للولد الکبیر لأن ید الواهب ثابتة علی الدار."

(کتاب الھبة، الفصل الثاني فیما یجوز من الھبة، وفیما لایجوز، نوع منه، ج:14، ص:431، ط:مکتبة زکریا بدیوبند الھند)

البنایة شرح الھدایةمیں ہے:

"‌إذا ‌طلب ‌أحد ‌الشريكين ‌القسمة من صاحبه وامتنع صاحبه من ذلك، فإن القسمة واجبة عليه، فإذا ضمن إنسان ليقوم مقامه في القسمة يجوز ذلك، لأنه ضمن شيئا مضمونا وهو يقدر على ذلك، يعني على إيفائه."

(كتاب الكفالة، فصل في الضمان، ج:8، ص:469، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

مجلة الأحکام العدلیة میں ہے:

"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه. على ما يبين في الفصل الثالث والرابع.

المادة (1131) قابل القسمة هو المال المشترك الصالح للتقسيم بحيث لا تفوت المنفعة المقصودة من ذلك المال بالقسمة."

(‌‌الفصل الثاني: في بيان شرائط القسمة، مادۃ:1130، ط:کتب خانہ نورمحمد کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144606101713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں