میں پولیس میں ملازم ہوں ، مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی مجرم کو پکڑنے جاتے ہیں تو اس کے پکڑنے میں ہمارا جتنا پٹرول صرف ہوتا ہے ، اس کے پیسے ہم مجرم سے وصول کرتے ہیں ۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے مجرم سے صرف شدہ پٹرول کے پیسے لینا جائز ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں پولیس کے لیے مجرم کے پکڑنے میں صرف شدہ پٹرول کے پیسے مجرم سے لینا شرعاً جائز نہیں ہے ، بلکہ جرائم کی روک تھام کے لیے جرائم پیشہ افراد کو پکڑنا ، ان کو جائز سزا دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست اس کے لیے متعلقہ اداروں کو اس کے ضروری اخراجات فراہم کرنے کی پابند ہے اور فراہم کرتی بھی ہے ، باقاعدہ بجٹ میں اس کے لیے فنڈ مختص کرتی ہے ، اس لیے محکمہ پولیس سرکار کی طرف سے اس مد میں ملنے والے اخراجات ہی صَرف کر نے کا پابند ہے ، اگر بالفرض ریاست کی طرف سے کوئی رقم نہیں ملتی ہے تو ایسی صورت میں محکمہ پولیس ریاست سے تو قانونی طریقہ سے مطالبہ کر سکتی ہے ، لیکن پولیس کے لیے مجرم سے اس مد میں کسی قسم کی رقم وصول کرنا جائز نہیں ہے۔
السنن الكبرى ميں ہے:
"عن أبي حرة الرقاشي ، عن عمه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."
(كتاب الغضب ، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا : 6 / 166 ، رقم : 11545 ، ط : دار الكتب العلمية)
«الإسلام وأوضاعنا السياسية» میں ہے :
"قد حاول بعض الفقهاء أن يعدد واجبات الإمام فحصرها في عشرة أشياء :............
"الرابع: إقامة الحدود لتصان محارم الله عن الانتهاك، وتحفظ حقوق عباده من إتلاف واستهلاك. أي تنفيذ عقوبات جرائم الحدود وجرائم القصاص۔"
( واجبات الامام : 247 ، ط : مؤسسة الرسالة)
فقط و اللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100984
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن