بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجرم کے پکڑنے میں صرف ہونے والے پٹرول کے پیسے مجرم سے لینا جائز نہیں


سوال

 میں پولیس میں ملازم ہوں ،  مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی مجرم کو پکڑنے جاتے ہیں تو اس کے پکڑنے میں ہمارا جتنا پٹرول صرف ہوتا ہے ، اس کے پیسے ہم مجرم سے وصول کرتے ہیں ۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیا ہمارے لیے مجرم سے صرف شدہ پٹرول کے پیسے لینا جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں پولیس کے لیے مجرم کے پکڑنے میں صرف شدہ پٹرول کے پیسے مجرم سے لینا شرعاً جائز نہیں ہے ، بلکہ  جرائم کی روک تھام کے لیے جرائم پیشہ افراد  کو پکڑنا ، ان کو جائز سزا دینا   ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست اس کے لیے متعلقہ اداروں کو اس کے ضروری اخراجات فراہم کرنے کی پابند ہے اور فراہم کرتی بھی ہے ، باقاعدہ بجٹ میں اس کے لیے فنڈ مختص کرتی ہے ، اس لیے محکمہ   پولیس  سرکار کی طرف سے اس مد میں  ملنے والے اخراجات ہی صَرف کر نے کا پابند ہے ، اگر  بالفرض ریاست کی طرف سے کوئی رقم نہیں ملتی ہے تو ایسی صورت میں  محکمہ پولیس ریاست سے تو قانونی طریقہ سے  مطالبہ کر سکتی ہے ، لیکن  پولیس کے لیے مجرم سے اس مد میں کسی قسم کی رقم  وصول کرنا جائز  نہیں  ہے۔

السنن الكبرى ميں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي ، عن عمه ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(كتاب الغضب ، باب من غصب لوحا فأدخله في سفينة أو بنى عليه جدارا : 6 / 166 ، رقم : 11545 ، ط : دار الكتب العلمية)

«الإسلام وأوضاعنا السياسية» میں ہے :

"قد حاول بعض الفقهاء أن يعدد واجبات الإمام فحصرها في عشرة أشياء :............

"الرابع: إقامة الحدود لتصان محارم الله عن الانتهاك، وتحفظ حقوق عباده من إتلاف واستهلاك. أي تنفيذ عقوبات جرائم الحدود وجرائم القصاص۔"

( واجبات الامام : 247 ، ط : مؤسسة الرسالة)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100984

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں