بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجیب اللہ نام کا معنی اور رکھنے کا حکم


سوال

کیا مجیب اللہ نام رکھنا درست ہے، برائے کرم اس نام کا معنی اور اس کی وضاحت کیجیے؟

جواب

مجیب اللہ تعالی کے  اسماءِ  صفات میں  سے ایک صفتی نام  ہے، اور اس کا معنی ہے "جواب دینے والا، قبول کرنے والا،  عطا کرنے والا"، تاہم یہ ان اسماءِ صفات میں سے ہے جن کا استعمال انسان کے لیے کیا جاسکتاہے؛ لہذا مجیب اللہ نام رکھنا درست ہے۔

لسان العرب میں ہے :

"جوب: في أسماء الله ‌المجيب، وهو الذي يقابل الدعاء والسؤال بالعطاء والقبول، سبحانه وتعالى، وهو اسم فاعل من أجاب يجيب. والجواب، معروف: رديد الكلام، والفعل: أجاب يجيب. قال الله تعالى: فإني قريب أجيب دعوة الداع إذا دعان فليستجيبوا لي؛ أي فليجيبوني. وقال الفراء: يقال: إنها التلبية، والمصدر الإجابة، والاسم الجابة، بمنزلة الطاعة والطاقة. والإجابة: رجع الكلام، تقول: أجابه عن سؤاله، وقد أجابه إجابة وإجابا وجوابا وجابة واستجوبه واستجابه واستجاب له. قال كعب ابن سعد الغنوي يرثي أخاه أبا المغوار."

 (‌‌‌‌حرف الباء، فصل الجيم، ج:1، ص:283، ط:دار صادر - بيروت)

تاج العروس من جواهر القاموس میں ہے:

"وفي أسماء الله تعالى} المجيب، وهو الذي يقابل الدعاء والسؤال بالعطاء والقبول، سبحانه وتعالى، وهو اسم فاعل من {أجاب} يجيب، قال الله تعالى {2. 015{أجيب دعوة ... فليستجيبوا لي} (البقرة: 186) أي! فليجيبوني، وقال الفراء يقال: إنها التلبية والمصدر: {الإجابة، والاسم} الجابة بمنزلة الطاعة والطاقة.( {والإجاب} والإجابة) مصدران (و) الاسم من ذلك (الجابة) كالطاعة والطاقة (والمجوبة) بضم الجيم، وهذه عن ابن جني (و) يقال: إنه لحسن ( {الجيبة، بالكسر) كل ذلك بمعنى (} الجواب)."

 (‌‌‌‌المادة:الجوب،   ج:2، ص:202، ط:وزارة الإرشاد والأنباء في الكويت)

تفسیر روح المعانی میں ہے :

"وذكر غير واحد من العلماء ‌أن ‌هذه ‌الأسماء منها ما يرجع إلى صفة فعلية ومنها ما يرجع إلى صفة نفسية ومنها ما يرجع إلى صفة سلبية. ومنها ما اختلف في رجوعه إلى شيء مما ذكر وعدم رجوعه وهو الله والحق أنه اسم للذات وهو الذي إليه يرجع الأمر كله، ومن هنا ذهب الجل إلى أنه الاسم الأعظم، وتنقسم قسمة أخرى إلى ما لا يجوز إطلاقه على غيره سبحانه وتعالى كالله والرحمن وما يجوز كالرحيم والكريم وإلى ما يباح ذكره وحده كأكثرها وإلى ما لا يباح ذكره كذلك كالمميت والضار فإنه لا يقال: يا مميت يا ضار بل يقال: يا محيي يا مميت ويا نافع يا ضار، والذي أراه أنه لا حصر لأسمائه عزت أسماؤه في التسعة والتسعين."

(سورۃ الأعراف،ج:5، ص:115، ط:دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے :

"‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى لكن التسمية بغير ذلك في زماننا أولى لأن العوام يصغرونها عند النداء كذا في السراجية..قوله ‌وجاز ‌التسمية ‌بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل."

(کتاب الحظر والاباحۃ،ج:6،ص:417، ط:سعید)

تحفۃ المودود باحکام المولود میں ہے :

"ومما يمنع تسمية الإنسان به أسماء الرب تبارك وتعالى فلا يجوز التسمية بالأحد والصمد ولا بالخالق ولا بالرازق وكذلك سائر الأسماء المختصة بالرب تبارك وتعالى ولا تجوز تسمية الملوك بالقاهر والظاهر كما لا يجوز تسميتهم بالجبار والمتكبر والأول والآخر والباطن وعلام الغيوب....وأما الأسماء التي تطلق عليه وعلى غيره كالسميع والبصير والرؤوف والرحيم فيجوز أن يخبر بمعانيها عن المخلوق ولا يجوز أن يتسمى بها على الإطلاق بحيث يطلق عليه كما يطلق على الرب تعالى."

(الباب الثامن فی ذکر تسمیته واحکامہا....، ص:125، ط:دارالبیان)

معارف القرآن لمفتی شفیع رحمہ اللہ "  میں ہے:

" اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز اور  گناہِ کبیرہ ہے، جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا۔"

(ماخوذ از تفسیر معارف القرآن ،ج:4،ص:132،ط:مکتبہ معارف القرآن )

فقط وللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100316

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں