بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

’’تمہاری بہن مجھ پر طلاق ہے‘‘ کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میری بہن کی شادی تقریباً 12، 13 سال پہلے ہوئی تھی، شادی کے بعد کچھ عرصہ تک ان کے شوہر کام کے سلسلے میں باہر ممالک آتے جاتے رہتے تھے، تقریباً پانچ سال کا عرصہ گزرچکا ہے کہ ان کے شوہر گاؤں نہیں لوٹے، اس عرصہ میں دیگر برادری کے لوگوں کا مختلف اوقات میں ان سے فون پر رابطہ ہوتا رہا لیکن فون پر ان کی گفتگو ٹھیک نہیں ہے، کچھ عرصہ قبل اپنی بیوی کے بڑے بھائی سے فون پر بات چیت کے دوران انہوں نے چار مرتبہ یہ الفاظ کہے تھے ’’ تمہاری بہن مجھ پر طلاق ہے، ہمارے گھر اس کو نہیں بھیجنا‘‘ اس کے بعد لڑکی کے والد (اس لڑکے سسر) نے فون کیا اور بات چیت ہوئی لڑکے سے اس کے متعلق بھی پوچھا تو اس نے صراحت کے ساتھ یہ الفاظ کہے ’’مجھے آپ کی بیٹی نہیں چاہیے، اپنی بیٹی کو سنبھال لو، تین سے چار مرتبہ باقاعدہ سسر کے کہنے پر یہ الفاظ دہرائے۔ 

1. آیا مذکورہ لڑکی پر طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

2. کیا صرف لڑکی کے بڑے بھائی کوفون پر طلاق کہنے سے لڑکی مطلقہ شمار ہوگی؟

3. اسی طرح لڑکی کے والد کو جو الفاظ کہے ان سے طلاق ہوئی یا نہیں؟

4. لڑکی اور لڑکے کا دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے یا نہیں؟

جواب

1، 2. صورت ِ مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہر نے اپنے سالے کو فون پر یہ الفاظ ’’ تمہاری بہن مجھ پر طلاق ہے، ہمارے گھر اس کو نہیں بھیجنا‘‘ چار مرتبہ کہہ دیے ہیں تو اس سے اسی وقت تین طلاقیں واقع ہوگئی تھیں اور نکاح ختم ہوگیا تھا، اب رجوع کی گنجائش نہیں رہی کیونکہ مطلقہ شوہر کے لیے حرام ہوچکی ہے۔

3.چونکہ سسر سے مذکورہ الفاظ کہنے سے پہلے ہی لڑکی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں اس لیے سسر کو یہ الفاظ کہنے سے مزید طلاق نہیں ہوئی۔ 

4.تین طلاق کے بعد مذکورہ لڑکی اور لڑکے کا دوبارہ نکاح نہیں ہوسکتا البتہ اگرمطلقہ عدت مکمل ہونے کے بعد اپنی مرضی سے کہیں اور نکاح کرے اور دوسرے شوہر سے ازدواجی تعلقات قائم ہوجائیں، اس کے بعد اگر دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے دے یا اس کا انتقال ہوجائے تو اس کی عدت مکمل کرنے کے بعد مذکورہ لڑکی  اپنے پہلے شوہر سے بھی نکاح کرسکے گی۔

قرآن کریم میں ارشادباری تعالی  ہے:

"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ." (البقرة: (229.230

’’ وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ۔۔۔ پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔‘‘  ) ترجمہ از بیان القرآن)

صحيح البخاری میں ہے:

"عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."

(كتاب الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث،2 / 300 ،ط:رحمانية)

ترجمہ: ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔‘‘

الفتاوى الهندية (1/ 473)

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة،فصل فيما تحل به المطلقة ومايتصل به،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں