بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مجھ پر کلما کی طلاق ہوگی کا حکم


سوال

میں ایک اکیڈمی میں آن لائن ٹیچر تھا، وہاں پر ہم سے ایک معاہدے پر حلف لیا گیا ہے حلف کے الفاظ مندرجہ ذیل ہیں:

میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر عہد کرتا / کرتی ہوں کے اکیڈمی میںملازمت کے دوران اور ملازمت چھوڑنے کے بعد بھیدرج ذیل شرائط کی مکمل پاسداری کروں گا / کروں گی۔ میں سٹوڈنٹ کی معلومات (سکائپ آئی ڈی ، ای میل، یا کسی بھی آئی ڈی کے پاسورڈ کوئی بھی دیگر معلومات جو اکیڈمی مجھے فراہم کرتی ہے ) کا کبھی بھی نہ خود ذاتی استعمال کروں گا / کروں گی،نہ کسی اور کو فراہم کروں گا/ کروں گی، میں سٹوڈنٹ سے کبھی بھی ان کی ذاتی معلومات یعنی فون نمبر ای میل یا کسی بھی رابطہ نمبر کے بارے میں نہیں پوچھوں گا پوچھوں گی۔ میں اپنے ذاتی معاملات یا مسائل کا کسی بھی سٹوڈنٹ یا ان کے سر پرستوں سے ذکر نہیں کرو ں گا /کروں گی اور نہ ہی کسی سے مالی معاونت کی درخواست کروں گا /کروں گی۔ میں اکیڈمی کے انتظامی معاملات کسی کو فراہم نہیں کروں گا/ کر وں گی، میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ میرے ساتھ آنے والے میرے محرم رشتہ دار یعنی میری والدہ، میرے حقیقی چچا /بھائی میں ان کی اجازت سے اکیڈمی میں ملازمت کر رہا ہوں۔ میں  اکیڈمی کی ان تمام شرائط کو بغور پڑھ کر اکیڈمی کے ساتھ اپنی ملازمت قبول کرتا / کرتی ہوں۔ مذکورہ بالا شرائط کی پاسداری کے لئے میں حلفاً اقرار کرتا ہوں کہ ان کے خلاف ورزی نہیں کروں گا /کروں گی، ان شرائط کی خلاف ورزی پر مجھے کلما کی طلاق واقع ہوگی۔

اب میں نے آکیڈمی سے بس کر دیا ہے. مسئلہ یہ ہے کہ ایک بچے کی ماں نے مجھے ویب سائٹ سے تلاش کر کے میرے ساتھ رابطہ کیا ہے اور میں نے اکیڈمی والوں کو بھی بتا دیا ہے تو اکیڈمی والوں نے مجھے منع کیا ہے کہ آپ ان کو نہیں پڑھا سکتے؟ لیکن وہ عورت پھر بھی کہہ رہی ہیں کہ میرے بچے آپ سے پڑھنا چاہتے ہیں اب میرے لئےکیا حکم ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص یوں کہہ دے کہ ’’مجھ پر کلما کی طلاق ہے‘‘  تو اس سے کوئی طلاق نہیں ہوگی،البتہ اگر کوئی "کلما" کے الفاظ اپنی  جانب سے یوں ادا کرے:  "کلما تزوجت فهي طالق"، یعنی یہ  کہے کہ "جب جب میں شادی کروں تو میری بیوی کو طلاق "، تو ہر بار طلاق واقع ہوتی ہے،  لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر معاہدہ میں مذکورہ الفاظ یہی  تھے کہ ” ان شرائط کی خلاف ورزی پر مجھے کلما کی طلاق واقع ہوگی“  تو ایسی صورت میں   نکاح کرنے کی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

باقی وعدہ کرکے اسے توڑنا جائز نہیں ہے؛ لہٰذا ایسا وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے جو پورا نہ کیا جاسکتاہو ، نیز معاہدہ و حلف کے لیے ’’کلما کی طلاق‘‘ کا عنوان اختیار کرکے کسی سے حلف لینا یا معاہدہ کرنا پسندیدہ نہیں ہے، بوقتِ ضرورت اللہ تعالیٰ کے نام کی قسم یا حلف کے ذریعے معاہدہ کو پختہ کیا جاسکتاہے۔ 

حاشية رد المختار على الدر المختار:

’’ قال في نور العين: الظاهر أنه لايصح اليمين؛ لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان: أن من قال: جعلت كلما، أو علي كلما، أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل، ومن هذيانات العوام اهـ  فتأمل.‘‘

(‌‌كتاب الطلاق،باب صريح الطلاق،ج3،ص247،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں