بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مجود کا غیر مجود کے پیچھے نماز کا حکم


سوال

1)ایک شخص کے دانتوں  میں چنے کے برابر کھانے کےذرات موجود ہیں،اور وہ شخص ایسی حالت میں ہی نماز پڑھ رہا ہے،اور نماز کے دوران ہی زبان سے وہ ذرہ نکال کر اندر نگل لیاتو ایسے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے؟ نیز اگر نگلنے کے بجائے،باہر پھینک دے تو حکم میں کیا فرق آئےگا؟

2)ایک مجود قاری و عالم کا ایسے شخص کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے جو کہ نماز میں تجوید کی غلطیاں کر تا ہے،لحنِ جلی کی بھی اور لحنِ خفی کی بھی،مثلاً :'أنعمتَ'کو  'أنأمتَ'پڑھنا،'العالمين' کو 'آلمين' اور' قل هو الله احد'کو'كُل هو الله احد'پڑھتا ہے،اور عام آدمی کا ایسے شخص کے پیچھے نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

1)اگر کوئی شخص دورانِ نماز ہی،منہ میں بچے ہوئے کھانے کے ان ذرات کو جو کہ چنے کے دانے کے برابر ہوں،نگل لے یا چبالے تو اس کی نماز فاسد ہوجاتی ہے اور اگر تھوک دے تو نماز فاسد تو نہیں ہوتی،لیکن دورانِ نماز تھوکنا،ایک نا پسندیدہ عمل ہے،کیوں کہ نماز کی حالت،اللہ تعالیٰ سے مناجات کی حالت ہے،لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے ،تاہم اگر تھوکنا ضروری ہی ہو تو نیچے کی طرف منہ کرکے،تھوکنا چاہیے،یا ٹیشو وغیرہ میں لے کر،جیب میں رکھ دینا چاہیے۔

2)جو آدمی قرآءتِ قرآن میں، ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے کا عادی ہو تو اس کوامامبنانے کے بارے میں تفصیل یہ ہےکہ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے سے معنیٰ کے بدلنے یا  خرا ب ہونے کا احتمال ہوتا ہے، اور معنی کی خرابی سے نماز کے فاسد ہونے کا اندیشہ ہوتا ہےاس لیے ایسے آدمی کو امام بنانا مکروہ ہے۔

ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے سے نماز کے فاسدہونے،نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ اگر اس تبدیلی سے معنی میں تغیر پیدا نہ ہو تو نماز فاسد نہیں ہوتی،اگر معنی میں تغیر پیدا ہوجائے تویہ دیکھاجائے گاکہ جن دو حرفوں کو آپس میں بدلا ہے،اگر ان کو بغیرمشقت کے، بغیر تبدیل کیے پڑھنا اور تلفظ کرنا ممکن ہو تو ایک حرف کے بجائے،دوسرا حرف پڑھ لینے سے نماز فاسد ہوجائےگی،اور اگر ان  دونوں حروف کے قریب المخرج ہونے کی وجہ سے ان میں فرق کرنے کے لیے محنت اور مشق کی ضرورت ہوتی ہو، تو اگر وہ غلطی سے  ان حروف کو تبدیل کرے،یا وہ ان حروف کے درمیان عجمی ہونے کی وجہ سے فرق ہی نہ کرسکتا ہو،تو نماز فاسد نہ ہوگی،بصورتِ دیگر نماز فاسد ہوجائے گی۔

مجود،قاری کا ایسے آدمی کی اقتداء میں نماز  پڑھنا درست نہیں ہے،اوربقیہ لوگوں کے لیے درست ہے۔

اور خود اس آدمی کی  اپنی نمازوں کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ آدمی مسلسل کوشش میں لگا رہے اور اپنی تمام تر محنتیں صرف کردے،تب اگر چہ اس کے حروف درست نہ بھی ہوں،یا کم از کم یہ اتنی مقدار بغیر کسی حرف کے تبدیل کیے ادا کرسکتا ہو جس سے نماز درست ہوجائے،تو اس کی نماز درست ہے،ورنہ نہیں،اور اس کو چاہیے کہ ساری نمازیں کسی کی اقتداء میں ادا کرے تاکہ قرآءت کی غلطی کی نوبت نہ آئے۔

"صحیح البخاري"میں ہے:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان في الصلاة فإنه يناجي ربه، ‌فلا ‌يبزقن بين يديه، ولا عن يمينه، ولكن عن شماله، تحت قدمه اليسرى."

(ص:406،ج:1،باب ما يجوز من البصاق والنفخ في الصلاة،ط:دار ابن كثير)

"بدائع الصنائع"میں ہے:

"ولو بقي بين أسنانه شيء فابتلعه إن كان دون ‌الحمصة لم يضره؛ لأن ذلك القدر في حكم التبع لريقه لقلته ولأنه لا يمكن التحرز عنه؛ لأنه يبقى بين الأسنان عادة فلو جعل مفسدا لوقع الناس في الحرج ولهذا لا يفسد الصوم به، وإن كان قدر ‌الحمصة فصاعدا فسدت صلاته."

(ص:242،ج:1،کتاب الصلوۃ،ط:دار الکتب العلمیة) 

"فتاوي قاضيخان"میں ہے:

"وإن ذكر حرفا مكان حرف و غير المعني فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة كالطاء مع الصاد...تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين والطاء مع التاء...قال القاضي الإمام رحمه الله لا تفسد صلاته."

(ص:129،ج:1،كتاب الصلاة،فصل في قرآءة القرآن خطا،ط:دار الكتب العلمية)

"ألفتاوي الهندية"میں ہے:

"ومنها ذكر حرف مكان حرف إن ذكر حرفا مكان حرف ولم يغير المعنى...لم تفسد صلاته وإن غير المعنى فإن أمكن الفصل بين الحرفين من غير مشقة...تفسد صلاته عند الكل وإن كان لا يمكن الفصل بين الحرفين إلا بمشقة ... قال أكثرهم لا تفسد صلاته. هكذا في فتاوى قاضي خان.وكثير من المشايخ أفتوا به... إن تعمد فسدت وإن جرى على لسانه أو كان لا يعرف التميز لا تفسد وهو أعدل الأقاويل والمختار هكذا في الوجيز للكردري ومن لا يحسن بعض الحروف ينبغي أن يجهد ولا يعذر في ذلك فإن كان لا ينطق لسانه في بعض الحروف إن لم يجد آية ليس فيها تلك الحروف تجوز صلاته ولا يؤم غيره وإن وجد آية ليس فيها تلك الحروف فقرأها جازت صلاته عند الكل وإن قرأ الآية التي فيها تلك الحروف قال بعضهم لا يجوز صلاته. "

(ص:79،ج:1،کتاب الصلوۃ،الباب الرابع في صفة الصلوة،ط:دار الفكر،بيروت)

"رد المحتار"میں ہے:

"و لا غير الألثغ به أي بالألثغ على الأصح ...، فلا يؤم إلا مثله، ولا تصح صلاته إذا أمكنه الاقتداء بمن يحسنه أو ترك جهده أو وجد قدر الفرض مما لا لثغ فيه، هذا هو الصحيح المختار في حكم الألثغ، وكذا من لا يقدر على التلفظ بحرف من الحروف أو لا يقدر على إخراج الفاء إلا بتكرار...أطلقه غير واحد من المشايخ من أنه ينبغي له أن لا يؤم غيره،...: وتكره إمامة الفأفاء اهـ ولكن الأحوط عدم الصحة كما مشى عليه المصنف...وقال أيضا:إمامة الألثغ للفصيح … فاسدة في الراجح الصحيح...قوله وكذا من لا يقدر على التلفظ بحرف من الحروف عطفه على ما قبله بناء على أن اللثغ خاص بالسين والراء كما يعلم مما مر عن المغرب، وذلك كالرهمن الرهيم والشيتان الرجيم والآلمين وإياك نأبد وإياك نستئين السرات أنأمت، فكل ذلك حكمه ما مر من بذل الجهد دائما وإلا فلا تصح الصلاة به."

(ص:582،ج:1،کتاب الصلوۃ،باب الإمامة،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"وإن كان الخطأ بإبدال حرف بحرف، فإن أمكن الفصل بينهما بلا كلفة كالصاد مع الطاء بأن قرأ الطالحات مكان الصالحات فاتفقوا على أنه مفسد، وإن لم يمكن إلا بمشقة كالظاء مع الضاد والصاد مع السين فأكثرهم على عدم الفساد لعموم البلوى."

(ص:631،ج:1،کتاب الصلوۃ،باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها،ط:سعيد)

"کفایت المفتی"میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

"صورت مسئولہ میں جو شخص امامت کرتا ہے اگر وہ قاف کو اپنے مخرج سے ادا کرنے پر قادر ہی نہیں ہے تو اس کی امامت جائز نہیں اگر وہ امامت کرے گا تو نہ خود اس کی نماز ہوگی نہ مقتدیین کی ۔۔۔ ایسے شخص کی امامت صرف اس صورت میں جائز ہے کہ اس کے تمام مقتدی بھی اسی جیسے ہوں لیکن سوال میں مذکور ہے کہ اس کے پیچھے قاری بھی نماز پڑھتے ہیں اور اس حالت میں تمام جماعت کی نماز فاسد ہوجاتی ہے۔"(75/3)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں