بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ محفلِ میلاد منعقد کرنے کا شرعی حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں دو تین سالوں سے جشنِ میلاد النبیؐ کا پروگرام منعقد کیا جاتا ہے،اور گاؤں کے علماء کرام عوام الناس کے ساتھ پیش پیش رہتے ہیں اور یہ پروگرام اب تک مسجد میں ہورہےہیں، علماء کرام کی تقریریں بھی ہوتی ہیں،تو کیا یہ شرعی حیثیت سے درست ہے؟

دوسری بات میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر اسی طرح ہر سال ہوتا رہے گا تو یہ طول پکڑ کے رسم بن جائے گا، ابھی سے ہی اس سے احتیاط کرنا چاہیے یا نہیں؟ اور دوسری بات میں اس کو منع کرنا چاہتا ہوں،تومنع کیا جائے یا نہیں؟ مکمل تشفی بخش جواب دیں؟

جواب

1:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کاذکر کرنااور آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تعریف و توصیف کرناانتہائی خیر وبرکت کا باعث ہے،مگراس کام کے لیے  باقاعدہ میلادالنبی کے نام سے خاص دنوں میں محافل کےانعقاد کو لازم یا ضروری سمجھنا اور ان محافل میں شرکت نہ کرنے والوں کو برا سمجھنادرست نہیں ہے،نیز آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کو بیان کرنے  کے لیے تاریخوں اور مہینوں کی بھی کوئی تعیین نہیں ہے،بلکہ سال کےتمام مہینوں میں  آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو بیان کرنایکساں موجبِ ثواب ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے گاؤں میں اگر نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ذکر کی کوئی  بھی محفل کسی مہینے کی تخصیص کے بغیر سال کے بارہ مہینوں میں کبھی بھی منعقد کرلی جاتی ہو،یا خاص ربیع الاول کے ماہ میں منعقد کرتے ہوئے اس کو لازم نہیں سمجھاجاتاہو،اور نہ ہی اس میں شریک نہ ہونے والوں پر نکیر کی جاتی ہو اور اس میں مروجہ بدعات، مثلاًذکرِ ولادت کے وقت اس مجلس میں شریک لوگوں کاکھڑے ہونا،تقریروں میں من گھڑت اور موضوع فضائل و روایات بیان کرنا،ان محافل کے انعقاد میں مال کا اسراف کرنا،چراغاں کرنا،تفاخراور ریاء کاری کامقصود ہونا وغیرہ بھی نہ پائی جاتی ہوں، تو ایسی محافل کے انعقاد میں شرعاًکوئی مضائقہ نہیں ہے۔

تاہم نبی کریم ﷺ کی پیدائش کی مناسبت سے خاص ربیع الاول کے مہینہ میں ایسی محافل کے انعقاد کواگر لازم سمجھاجائےاور اس میں شریک نہ ہونے والوں پر نکیر کی جائے،یا ان محافل میں اگر مندرجہ بالا خرابیاں پائی جائیں تو ایسی مجالس کا انعقاد جائز نہیں ہے۔

2:مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق سیرت کی محافل کاانعقاد اگر لازم سمجھتے ہوئے نہ کیاجاتا ہوتو وہ بدعت نہیں ہیں،بلکہ جائز ہے،البتہ جائز کام پر اتنی مداومت کرناکہ جس سےلوگوں کو اس کے فرض یا واجب ہونے کاگمان ہونےلگے،مکروہِ تحریمی ہے،اسی لیےبہتر یہ ہے کہ ایسی محافل کا انعقادہر سال نہ کیا جائے،اگر کرنا ہی ہوتو ایک،دو سال کے وقفہ سے کیاجائے،تاکہ لوگوں کو اس کے لازم ہونے کا شبہ نہ ہو،اور نہ ہی یہ آگے چل کر رسم کی صورت اختیار کرے،ایسی محافل کے انعقاد کرنے والوں کو زور زبردستی کے بجائے پیارومحبت سے سمجھاکر دین کے صحیح رُخ پر عمل کرنے کی ترغیب دینازیادہ فائدہ مند ہے۔

"القرآن الکریم"میں ہے:

"اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ."

(سورۃ النحل،الآية:١٢٥)

ترجمہ:"آپ اپنے رب کی راہ  کی طرف علم کی باتوں اور اچھی نصیحتوں کے ذریعے سے بلائیے اور ( اگر بحث آن پڑے تو) ان کے ساتھ اچھے طریقے سے بحث کیجیئے (کہ اس میں شدت و خشونت نہ ہو )۔"

"مرقاة المفاتيح"میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد...(من أحدث) ، أي: جدد وابتدع أو أظهر واخترع في أمرنا هذا) ، أي: في دين الإسلام...قال القاضي: المعنى ‌من ‌أحدث في الإسلام رأيا لم يكن له من الكتاب والسنة سند ظاهر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فهو مردود عليه."

(ص:٢٢١،ج:١،کتاب الإيمان،باب الاعتصام بالكتاب والسنة،ط:دار الفكر،بيروت)

"رد المحتار علی الدر المختار"میں ہے:

"وسجدة الشكر: مستحبة به يفتى لكنها تكره بعد الصلاة لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه.

(قوله فمكروه) الظاهر أنها تحريمية لأنه يدخل في الدين ما ليس منه."

(ص:١١٩،ج:٢،کتاب الصلاۃ،باب سجود التلاوۃ،ط:ایج ایم سعید)

"العقود الدرية في تنقيح فتاوي الحامدية"میں ہے:

"فائدة:كل ‌مباح ‌يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه كتعيين السورة للصلاة وتعيين القراءة لوقت ونحوه."

(ص:٣٣٣،ج:٢،كتاب الفرائض،ط:دار الكتب المعرفة)

’’اصلاح الرسوم‘‘ میں ہے:

’’پہلی صورت : وہ محفل جس میں قیود مروجہ متعارفہ میں سے کوئی قید نہ ہو نہ قید مباح نہ قید مکروہ، سب قیود سے مطلق ہو، مثلاً کچھ لوگ اتفاقا جمع ہو گئے، کسی نے ان کو اہتمام کر کے نہیں بلایایا کسی اور مباح ضرورت سے بلائے گئے تھے، اس مجمع میں خواہ کتاب سے بازیابی حضور پر نور سرور عالم فخربنی آدم علیم کے حالات ولادت شریفه و دیگر اخلاق و شمائل و معجزات و فضائل مبارک صحیح صحیح روایات سے بیان کر دیا گیا، اور اثنائے بیان میں اگر ضرورت امر بالمعروف و بیان احکام کی دیکھی جائے تو اس میں بھی دریغ نہیں کیا گیا یا اصل میں اجتماع استماع وعظ و احکام کے لیے ہو اس کے ضمن میں ان وقائع شریفہ و فضائل کا بیان بھی آگیا، یہ وہ صورت ہے کہ بلا نکیر جائز بلکہ مستحب و سنت ہے، رسول مقبول ﷺ نے اپنے حالات و کمالات اسی طریق سے بیان فرمائے ہیں، اور آگے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے ان کو روایت کیا، جس کا سلسلہ محدثین میں آج تک بفضلہ تعالی جاری ہےاور تابقائے دین رہےگا۔

دوسری صورت : وہ محفل جس میں قیود غیر مشروعہ موجود ہوں، جو کہ اپنی ذات میں بھی قبیح و معصیت ہیں، مثلا : روایات موضوعہ خلاف واقعہ بیان کی جائیں یا خوشرو خوش الحان لڑکے اس میں غزل خوانی کریں یا رشوت یا سود وغیرہ کا حرام مال اس میں خرچ کیا جائے یا حد ضرورت سے زیادہ اس میں روشنی فرش و آرائش مکان وغیرہ کا تکلف کیا جائے، یا لوگوں کو جمع کرنے کا اہتمام بہت مبالغہ سے کیا جائے کہ اس قدر اہتمام نماز و جماعت و وعظ کے لیے بھی نہ ہوتا ہو یا نثر و نظم میں حضرت حق تعالی شانہ یا حضرات انبیاء علیہم السلام کی توہین و گستاخی صراحتہ  یا اشارۃ کی جائے یا اس مجمع میں جانے سے نماز یا جماعت فوت ہو جائے یا وقت تنگ ہو جائے یا اس کا قوی احتمال ہو، یا بانی مجلس کی نیت شہرت و تفاخر کی ہو، یا رسول مقبول کو وہاں حاضر و ناظر جانا جائے یا کوئی اور امر اس قسم کا خلاف شرع اس میں پایا جائے، یہ وہ صورت ہے جو اکثر عوام و جہلاء میں شائع و ذائع ہے اور شرعاً بالکل ناجائز و گناہ ہے۔‘‘

(ص:١٣٠،باب سوم،فصل اول،ط:مکتبۂ رحمانیہ)

’’کفایت المفتی‘‘ میں ہے:

’’آنحضرت ﷺ کے حالات طیبہ اور فضائل و کمالات آپ کی رسالت و تبلیغ کی خدمات کا بیان ہر وقت جائز بلکہ مستحسن ہے، لیکن صرف ولا دت شریفہ کے لیے اسی نام سے مجلس میلاد منعقد کرنا سلفِ صالحین میں نہیں پایا گیا، یہ مجالس کوئی ساتویں صدی ہجری سے شروی ہو گئ ہیں اور ان کے بارے میں علماء کا اسی وقت سے اختلاف چلا آتا ہے کوئی اس کو جائز اور مستحسن قرار دیا تھا اور کوئی بدعت،قول راجح یہ ہے کہ حضور کے حالات طیبہ بیان کرنے کے لیے بطور مجلس وعظ کے اجتماع ہو ، اس میں حضور نبی کریمﷺ کے کمالات بیان کیےجائیں، صحیح روایات بیان کی جائیں، اسراف اور دیگر بدعات سے مجلس خالی ہو تو جائز ہے۔۔۔‘‘

(ص:١٥١،ج:١،کتاب العقائد،فصل عید میلاد،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں