بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محتاج والدین کےکمانا ضروری ہے یا دینی تعلیم حاصل کرنا


سوال

 ہمارے گھر کے معاشی حالات بہت خراب ہیں والد صاحب شروع سے کاروباری آدمی تھے، لیکن اچانک سب کچھ خسارے میں چلا گیا اور اس کے بعد دوبارہ کبھی صحیح نہ ہوسکے، 10 سال کے قریب عرصہ یوں ہی گزرا ،کوشش بہت کی لیکن کام نہ  بن پایا، اس دوران والد صاحب نے اللّٰہ کے حضور بہت معافی مانگی ،انہیں لگتا تھا کہ انہوں نے والدہ کی نافرمانی کی ہے ،جس کی سزا بھگت رہے ہیں، والدہ کے لئے پابندی سے ایصالِ ثواب کرتے کچھ عرصے بعد بہت اچھا خواب دیکھا ،جس سے ان کو احساس ہوا کہ یقیناً اللہ نے معاف کردیا ،پھر کسی نے بتایا کہ والد صاحب پہ جادو ہے ،معلوم کروانے پر پتہ چلا کہ واقعۃً خطرناک جادو ہے روزگار پر ، تو اس کا بھی توڑ کروادیا، لیکن آزمائش ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں، بہرحال اب یقین ہوگیا ہے کہ والد صاحب کے ذریعے اس گھر میں اب شاید روزی نہ آئے، بہن بھائی ٹیوشن پڑھانے کے ذریعے اپنا خرچہ نکال لیتے ہیں، والدین کی بھی مدد کرتے ہیں ،لیکن اس سے کچھ گزارا نہیں، چند ہزار کوئی معنی نہیں رکھتے،لیکن والد صاحب کے ذریعے کوئی کام نہیں ہوتا،( والد صاحب زمینوں کے کام میں دلچسپی رکھتے ہیں اس میں ان کوتجربہ بہت ہے، اس کے علاوہ کسی دوسرے کام کی کبھی کوشش نہیں کی ،یہ کہہ کر کے مجھ سے نہیں ہوگا یا میں نہیں کرسکتا) اب سوال یہ ہے کہ میرا جوان بھائی ہے ،قریبا 24 سال عمر ہے ،وہ عالم بن رہا ہے، تو کیا اس پر ضروری ہے کہ وہ گھر کی ذمہ داری اٹھانے کے لئے محنت کرے اور اس کے لئے علم دین حاصل کرنا چھوڑ دے ؟کیوں کہ ایک ساتھ دو چیزیں کرنا مشکل ہے ،مدرسے میں پورا وقت دینا اور پھر گھر آکر اس پر مزید محنت کرنا، تو کمانے کے لئے پھر وقت کیسے نکالے؟ یا توکل علی اللہ کرے اور خالص مدرسے میں وقت دے؟ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس وقت اس کے لئے کیا فرض ہے؟ براہ کرم کوئی دعا یا وظیفہ بتائیں جس سے حالات بہتر ہو جائیں، کم از کم محتاجی سے بچ جائیں لوگوں کے طعنے کہ تمہارے باپ بھائی کام نہیں کرتے ،اس نے ہمیں اندر سے توڑ دیا ہے ،اب مایوس ہوگئے ہیں۔

جواب

واضح رہےکہ  دین کے ضروری  اور بنیادی احکام   کا علم سيكھنا ہر شخص پرلازم و ضروری ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے والدین اگر بیٹے  کی کمائی کے محتاج ہو ں ،تو اس صورت میں اگر بیٹا(سائلہ کا بھائی) کمائی کے ساتھ اپنی مزيد دینی علوم کی پڑھائی جاری رکھ سکتاہے  تو مزيد تعليم کا سلسلہ بھی جاری رکھے،(جیسا کہ آج کل بعض مدارس میں جزوقتی پڑھائی ہوتی ہے یا  ’’دراسات‘‘کے نام پر  مختصر کورس کرائے جاتے ہیں ،جس میں ملازم حضرات کےاوقات کی مکمل رعایت رکھی جاتی ہے ،یوں دونوں کا م خوش اسلوبی سے سرانجام دیے جاسکتے ہیں )،البتہ اگر پڑھائی کاسلسلہ جاری نہ رکھ سکتاہو تو  چو ں کہ والدین محتاج ہيں اور ان کا نان نفقہ بیٹے پر لازم ہوتاہے،لہٰذاسائلہ کے بھائی  کے لیےبنیادی تعلیم کے بعد والدین کی خدمت کے لیے کمانا زیادہ ضروری ہے،اور معاش کے اسباب اختیار کیے بغیر محض ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا توکل نہیں ،ایسے شخص کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ:’’ یہ توکل کرنے والے نہیں بلکہ لوگو ں کے مال پر بھروسہ کرنے والے ہیں‘‘ ،لہٰذامعاش کے اسباب اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں ۔نیز معاشی حالت کی تنگی  کو دور کرنے کے لیے پنج وقتہ نمازوں کی پابندی   کے ساتھ  کثرت سے دعائیں کریں اور روزانہ مغرب کے بعد سورۃ الواقعہ پڑھنے کا اہتمام کریں   حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ابن مسعود رضي الله عنه سے مروی ہے کہ :جوشخص روزانہ سورۃالواقعہ پڑھے گا اسے کبھی فاقہ نہیں ہوگا اور ابن مسعود رضي الله اپني بيٹيو ں كو روزانه رات  سورۃالواقعۃ پڑھنے کا کہاکرتے تھے۔

مشکاۃالمصابیح میں  ہے:

"وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قرأ سورة ‌الواقعة في كل ليلة لم تصبه فاقة أبدا» . وكان ابن مسعود يأمر بناته يقرأن بها في كل ليلة. رواه البيهقي في شعب الإيمان".

(كتاب فضائل القرآن،الفصل الثالث،ج:1،ص:668،ط:المكتب الإسلامي۔بيروت)

شعب الایمان میں ہے:

"وروي عن معاوية بن قرة أن عمر بن الخطاب أتى على قوم فقال: ما أنتم؟ فقالوا: نحن المتوكّلون، فقال بل أنتم المتكلون، ألا أخبركم بالمتوكلين؟ رجل ألقى حبة في بطن الأرض ثم توكل على ربه. وقوله "المتكلون " يعني على أموال الناس".

(باب التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء،ج:2،ص:429،ط:مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قوله (وله الخروج إلخ) أي إن لم يخف على والديه الضيعة بأن كانا موسرين، ولم تكن نفقتهما عليه. وفي الخانية: ولو أراد الخروج إلى الحج وكره ذلك قالوا إن استغنى الأب عن خدمته فلا بأس، وإلا فلا يسعه الخروج، فإن احتاجا إلى النفقة ولا يقدر أن يخلف لهما نفقة كاملة أو أمكنه إلا أن الغالب على الطريق الخوف فلا يخرج، ولو الغالب السلامة يخرج. وفي بعض الروايات لا يخرج إلى الجهاد إلا بإذنهما ولو أذن أحدهما فقط لا ينبغي له الخروج، لأن مراعاة حقهما فرض عين والجهاد فرض كفاية، فإن لم يكن له أبوان وله جدان وجدتان فأذن له أبو الأب وأم الأم دون الآخرين لا بأس بالخروج لقيامهما مقام الأبوين، ولو أذن الأبوان لا يلتفت إلى غيرهما هذا في سفر الجهاد، فلو في سفر تجارة أو حج لا بأس به بلا إذن الأبوين إن استغنيا عن خدمته إذ ليس فيه إبطال حقهما إلا إذا كان الطريق مخوفا كالبحر فلا يخرج إلا بإذنهما وإن استغنيا عن خدمته ولو خرج المتعلم وضيع عياله يراعى حق العيال اهـ".

(كتاب الحظر والاباجة،ج:6،ص:408،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100983

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں