بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام میں نوحہ خوانی کرنے کا حکم


سوال

 ماہِ محرم الحرام کے ایام میں ایک خاص فرقہ کے علاوہ اہلِ سُنت والجماعت کے بعض لوگ بھی نوحہ خوانی کرنا اور سُننا شروع کر دیتے ہیں، تو کیا اس طرح نوحہ خوانی کرنا جائز ہے؟ 

جواب

محرّم  الحرام  کے مہینے  میں  واقعہ کربلا اور  شہادتِ حسین رضی اللہ  عنہ  کی وجہ سے  دل رنجیدہ،  غمگین ہونا  اور  اس پر صبر کرنا  مسلمانوں  کا شیوہ ہے، یہ  اسلامی تاریخ  میں ایک بہت بڑا صدمہ تھا، لیکن اس صدمہ پر صبر وتحمل کرنے کے بجائے  رسمی دکھ اور غم منانا پھر خاص کر خلافِ شرع امور یعنی نوحہ خوانی  اور سینہ کوبی کے ذریعے اس رسمی غم اور دکھ کو  ظاہر کرنا اسلام میں حرام  ہے، حدیث شریف میں نوحہ خوانی کرنے والوں پر سخت وعیدیں آئی ہے، جیسے کہ مندرجہ ذیل احادیث میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم النائحة والمستمعة. رواه أبو داود".

(مشكوة المصابيح، کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1732، ج:1، ص:543، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمائی نوحہ خوانی کرنے والی پر اور اس کو سننے والی پر"

"وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية»."

(مشكوة المصابيح، کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1726، ج:1، ص:541، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " وہ شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے (یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسے الفاظ اور ایسی آواز نکالے جو شرعا ممنوع ہے جیسے نوحہ یا واویلا کرنا وغیرہ وغیرہ)۔ "

"وعن أبي بردة قال: أغمي على أبي موسى فأقبلت امرأته أم عبد الله تصيح برنة ثم أفاق فقال: ألم تعلمي؟ وكان يحدثها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أنا بريء ممن حلق وصلق وخرق» . ولفظه لمسلم."

(مشكوة المصابيح، کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1726، ج:1، ص:541، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت ابی بردہ  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں (ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بےہوش ہوگئے تو ان کی اہلیہ ام عبداللہ  چلا  چلا  کر  رونے  لگی  جب حضرت ابوموسیٰ کو ہوش آیا تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں نہیں معلوم ؟ کہ چلا چلا کر رونا کتنا برا ہے چنانچہ راوی کہتے ہیں کہ پھر ابوموسیٰ ان سے یہ حدیث بیان کرنے لگے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں اس شخص سے بے زار ہوں جو مصیبت و حادثہ کے وقت سر کے بال منڈائے، چلا چلا  کر روئے اور اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ (بخاری ومسلم) حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔

"وعن أبي مالك الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أربع في  أمتي من أمر الجاهلية لا يتركونهن: الفخر في الأحساب والطعن في الأنساب والاستسقاء بالنجوم والنياحة ". وقال: «النائحة إذا لم تتب قبل موتها تقام يوم القيامة وعليها سربال من قطران ودرع من جرب» . رواه مسلم."

(مشكوة المصابيح، کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1727، ج:1، ص:541، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ: حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں  کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: " زمانہ جاہلیت کی چار باتیں ایسی ہیں جنہیں میری امت کے (کچھ) لوگ نہیں چھوڑیں گے: (1) حسب پر فخر کرنا، (2) نسب پر طعن کرنا (3) ستاروں کے ذریعہ پانی مانگنا (4) نوحہ کرنا۔  نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:  " نوحہ کرنے والی عورت نے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں کھڑی کی جائے گی کہ اس کے جسم پر  "قطران"  (تارکول) کی شلوار اور " خارش"  کا کرتا ہوگا۔"

لہذا مذکورہ واقعہ کی مناسبت  سے جو شخص بھی خلافِ شرع امور کے  ذریعے اپنے رسمی دکھ اور غم کو ظاہر کرےگا اور نوحہ خوانی کرے گا تو  وہ مذکورہ وعیدوں میں داخل ہوگا، ایسے لوگوں کی مجلسوں میں شریک ہونا بھی جائز نہیں ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201433

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں