بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام یا ربیع الاول کا کھانا کھانے کا حکم


سوال

میں مسجد کا امام ہوں، اور مجھے ایک ہوٹل والا روزانہ کھانا دیتا ہے دونوں ٹائم، البتہ وہ ہوٹل والا ربیع الاول اور محرم کے مخصوص دنوں میں بریانی بناتا ہے، اور مجھے بھی دیتاہے، وہ خود اور اس ہوٹل کا سارا عملہ میرے پیچھے نماز پڑھتا ہے، تو کیا میرے لئے ربیع الاول اور محرم کے مخصوص دنوں میں اس ہوٹل والے سے کھانا لینا جائز ہے۔

جواب

محرم یا بارہ ربیع الاول کو کھانا تقسیم کرنے کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کرنا اور اس کو دین کا جزو بنانا بدعت ہے، اس بدعت اور التزام کو ختم کرنے کے لئے نہ ان ایام میں خاص کھانا تقسیم کرنا چاہیے اور نہ ایسا کھانا قبول   کرنا چاہیے، البتہ اگر ان  ایام میں  کہیں سے کھانا آ گیا  تو اس کے کھانے کا حکم یہ ہے  کہ  اگر وہ کھانا    اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام کی نذر و نیاز ہو تو اس کا کھانا حرام ہوگا، اور اگر وہ اللہ کے نام کی نیاز ہو اور ایصالِ ثواب مقصود ہو تو  بھی چوں کہ ان ایام کو خاص کرکے کھانا یا کوئی اور کھانے کے   چیز وغیرہ تقسیم کرنا التزام و اہتمام کی وجہ سے  بدعت بن چکا ہے، اس لیے اگر کوئی  ضرورت مند نہ ہو تو اس کے لیے  ایسے کھانے سے اجتناب کرنا چاہیے، البتہ اگر ضرورت مند ہو   تو اس کے لیے کھانے کی گنجائش ہے۔

 صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ ہوٹل والا امام صاحب (سائل )کو سال کے دوسرے دنوں کی طرح ان دنوں میں بھی عادت کے مطابق کھانا دیتا ہے اور ہوٹل والا ان مخصوص دنوں میں بریانی کے پکانے کا اہل بدعت کی طرح التزام اور اہتمام نہیں کرتا اور نہ ہی یہ کھانا غیر اللہ کی نذر و نیاز کے طور پر ہوتا ہے تو امام صاحب کا اس سے کھانا لینا درست ہے۔اور اگر ہوٹل والا مذکورہ دنوں میں بریانی کے پکانے  کو لازم سمجھتا ہے ،اور ان مخصوص دنوں میں خاص کھانا پکانے اور اسے تقسیم کرنے کو دین کا حصہ سمجھتا ہے،اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے نام کی نذر و نیاز ہے تو اس کھانے سے اجتناب کرنا لازم ہے۔

قرآن کریم میں    ہے:

"{ إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ}."(البقرة :173)

ترجمہ:"اللہ تعالیٰ نے تم پر صرف حرام کیا ہے مردار کو اور خون کو (جو بہتا ہو) اور خنزیر کے گوشت کو (اسی طرح اس کے سب اجزاء کو بھی) ایسے جانور کو جو (بقصد تقرب) غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو۔ پھر بھی جو شخص (بھوک سے بہت ہی) بیتاب ہوجاوے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ (قدر حاجت سے) تجاوز کرنے والا ہو تو اس شحص پر کچھ گناہ نہیں ہوتا واقعی اللہ تعالیٰ ہیں بڑے غفوررحیم۔"(بیان القرآن)

صحيح البخاری میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أحدث ‌في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد."

(باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج:2، ص:959، ط: دار ابن كثير)

ترجمہ:" عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے ہماری دین میں ایسی بات ایجاد کی جس کا تعلق  ہمارے حکم سے  نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔"

صحيح مسلم ہے:

"عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ‌من ‌عمل عملا ليس عليه أمرنا ‌فهو ‌رد."

( باب نقض الأحكام الباطلة ورد محدثات الأمور،  ج:5، ص:132، ط: دار الطباعة العامرة التركية)

ترجمہ:" عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:کہ جس نے (دین سمجھ کر) ایسا کام کیا جس کے تعلق سے ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ رد کردینے کے قابل ہے۔"

تفسیر کبیر میں ہے:

"والحجة فیه انھم اذا ذبحوا علی اسم المسیح فقد اھلو به لغیر اللہ فواجب ان یحرم وروی عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال اذا سمعتم الیھود والنصاری یھلون لغیر اللہ فلا تاکلوا ."

(البقرة:73، ج:3، ص:23،  ط: دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك،..ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار، ولقد قال الإمام محمد: لو كانت العوام عبيدي لأعتقتهم وأسقطت ولائي وذلك لأنهم لا يهتدون فالكل بهم يتغيرون."

(كتاب الصوم، فروع في الصيام، مطلب في النذر الذي ‌يقع للأموات، ج:2، ص:439، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101507

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں