بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام کے روزوں کی حیثیت/ ان روزوں میں رمضان المبارک کے قضاء کی نیت کرنا


سوال

کیا محرم الحرام کے روزے رکھنا ضروری ہے اور ان روزوں میں ہم رمضان المبارک کے چھوٹے ہوے روزوں کی قضاء کرسکتے ہیں؟

جواب

محرم الحرام کے روزے رکھنا ضروری نہیں ہے؛ کیوں کہ ان روزوں کی حیثیت نفلی روزے کی ہے، البتہ محرم الحرام کا مہینہ قابلِ احترام  اور عظمت والا مہینہ ہے، اس میں دس محرم الحرام کے روزے  کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ،رمضان کے علاوہ باقی گیارہ مہینوں کے روزوں میں محرم کی دسویں تاریخ کے روزے کا ثواب سب سے زیادہ ہے، اور اس ایک روزے کی وجہ سے گزرے ہوئے ایک سال کے گناہِ صغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے ساتھ نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے، اور یومِ عاشورہ کے علاوہ  اس پورے مہینے میں بھی روزے رکھنے کی فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آپ ﷺ نے ماہِ محرم میں روزہ رکھنے کی ترغیب دی ہے۔

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :افضل ترین روزے رمضان کے  بعد ماہ محرم کے ہیں، اور فرض کے بعد افضل ترین نماز رات کی نماز ہے۔

واضح رہے کہ نفل روزہ الگ ہے اور فرض کی قضا کا روزہ  الگ اور مستقل حیثیت رکھتا ہے،  روزہ میں  نفل کی نیت کرنے سے وہ نفلی روزہ ہوگا  اور قضا کی نیت کرنے سے وہ قضا کا روزہ ہوگا، ایک روزہ میں نفل اورقضا دونوں  کی نیت نہیں کرسکتے ہیں؛ لہذا اگر کوئی شخص محرم الحرام کے روزہ کا ثواب حاصل کرنا چاہتا ہے تو وہ نو ، دس یا دس گیارہ کو نفل کی نیت سے روزے رکھے، محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کو اگر کوئی شخص قضا کا روزے رکھے تو قضا کے روزے ادا ہوجائیں گے، (اس نیت سے روزہ رکھنے کی ممانعت نہیں ہے)  لیکن  اسے عاشوراء کے روزہ رکھنے کی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔

 ’’[عن أبي هريرة:] سُئلَ: أيُّ الصلاةِ أفضلُ بعد المكتوبةِ؟ وأيُّ الصيامِ أفضلُ بعد شهرِ رمضانَ؟ فقال " أفضلُ الصلاةِ، بعد الصلاةِ المكتوبةِ، الصلاةُ في جوفِ الليل ِ. وأفضلُ الصيامِ، بعد شهرِ رمضانَ، صيامُ شهرِ اللهِ المُحرَّمِ ".

مسلم (٢٦١ هـ)، صحيح مسلم ١١٦٣ • صحيح •‘‘.

اسی طرح عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا : جو  شخص یومِ عرفہ کا روزہ رکھے گا  تو اس کے دو سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور جو  شخص محرم کے مہینہ میں ایک روزہ رکھے گا، اس کو ہر روزہ کے بدلہ میں تیس روزوں کا ثواب ملے گا۔

 ’’[عن عبدالله بن عباس:] من صام يومَ عرفةَ كان له كفَّارةَ سَنتيْن، ومن صام يومًا من المُحرَّمِ فله بكلِّ يومٍثلاثون يومًا‘‘.

(المنذري (٦٥٦ هـ)، الترغيب والترهيب ٢/١٢٩ • إسناده لا بأس به • أخرجه الطبراني (١١/٧٢) (١١٠٨١)، وفي «المعجم الصغير» (٩٦

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"ولو نوى قضاء رمضان والتطوع كان عن القضاء في قول أبي يوسف، خلافاً لمحمد فإن عنده يصير شارعاً في التطوع، بخلاف الصلاة فإنه إذا نوى التطوع والفرض لايصير شارعاً في الصلاة أصلاً عنده، ولو نوى قضاء رمضان وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، وفي القياس يكون تطوعاً، وهو قول محمد، كذا في الفتاوى الظهيرية."

(كتاب الصوم،باب ما يفسد الصوم وما لا يفسده،ج،2،ص، 299،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501100546

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں