بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم کے مہینے میں کسی خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دینے کا حکم


سوال

ہمارے یہاں محرم کے مہینے میں کسی بھی خوشی کے موقع پر لوگ ایک دوسرے کو مبارک باد دینے سے منع کرتے ہیں، کیا ہم محرم کے مہینے میں کسی بھی خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو مبارک باد دے سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ خوشی کے موقع پر مبارک باد یعنی برکت کی دعا دینا احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے، تاہم مبارک باد دینے یا نہ دینے کے سلسلے میں کسی مہینے کی تعیین کرنا یا کسی مہینے میں مبارک دینے سے منع کرنے کی صراحت نہیں ملتی، لہٰذا خوشی کے موقع پر ایک دوسرے کو برکت کی دعا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اگرچہ وہ موقع محرم کے مہینے میں ہو یا کسی دوسرے مہینے میں۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة - رضي الله عنه - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان إذا رفأ الإنسان إذا تزوج، قال (بارك الله لك، وبارك عليكما، وجمع بينكما في خير»).

وقوله: إذا تزوج: ظرفية محضة أي: إذا هنأ له ‌دعا ‌له ‌بالبركة حين تزوجه."

(كتاب الدعوات، باب الدعوات في الأوقات، ج:4، ص:1696، رقم:2445، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"وعن عائشة - رضي الله عنها: «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - كان يؤتى بالصبيان فيبرك عليهم، ويحنكهم»

(فيبرك عليهم) : بتشديد الراء أي يدعو لهم بالبركة بأن يقول للمولود: بارك الله عليك. في أساس البلاغة، يقال: وبارك الله فيه وبارك له، وبارك عليه وباركه، وبرك على الطعام، وبرك فيه إذا ‌دعا ‌له ‌بالبركة."

(كتاب الصيد والذبائح، باب العقيقة، ج:7، ص:2686، رقم:4150، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"وعن سعد بن مالك - رضي الله عنه - أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: " «لا هامة ولا عدوى ولا طيرة. وإن تكن الطيرة في شيء ففي الدار، والفرس والمرأة»...

والمعنى أن فرض وجودها تكون في هذه الثلاثة، ويؤيده ما ورد في الصحيح بلفظ: " «إن كان الشؤم في شيء ففي الدار والمرأة والفرس» "، والمقصود منه نفي صحة الطيرة على وجه المبالغة."

(كتاب الطب والرقى، باب الفأل والطيرة، ج:7، ص:2892، رقم:4576، ط: دارالفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501101034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں