بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم کی دس تاریخ کی فضیلت/ محرم الحرام کی رسومات کرنے والوں سے قطع تعلقی کرنا/ محرم منانا اہل تشیع کا طریقہ ہے


سوال

1- محرم الحرام کے مہینے کی  10 تاریخ کی فضیلت صحیح احادیث سے کیا کیا ثابت ہیں؟

2-محرم الحرام کی رسومات اور غیر شرعی کام جو لوگ کرتے ہیں،ان سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟

3-حقیقت میں محرم کا منانا اہل تشیع  کی عادت ہے، اس کا کیا ثبوت ہے؟

جواب

1- احادیث سے محرم کی 10 تاریخ کے حوالے سے درج ذیل خصوصیات معلوم ہوتی ہیں:

1۔ مبارک دن ہے۔

2۔ اس دن بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات ملی تھی، اس کے شکر انے پر روزہ رکھا کرتے تھے۔
3۔ حضرت موسی علیہ السلام اس دن بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے۔ 
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن روزہ رکھا کرتے تھے، اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔

2- جو لوگ رسومات  اور غیر شرعی امورمیں مبتلاہوں ،ان کو اولا سمجھانا چاہیے اگر وہ پھر بھی ان امور سے باز نہ آئیں،تو ان سے میل جول کم کرسکتے ہیں۔

3-واضح رہے کہ اہل تشیع کے ہاں محرم کامہینہ غم کا مہینہ ہے،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مہینہ میں نواسۂ  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا واقعہ رونما ہوا،اسی لیے یہ لوگ  آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں سوگ مناتے ہیں ،نوحہ  گاتے ہیں اور دیگر  اعمال سرانجام دیتے ہیں ،جب کہ اگر اس دنیا سے کسی نیک ہستی کے جانے کا دن اور مہینہ غم منانے کا مہینہ ہوتا ،  تو آپ کے والد(حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ) آپ سے زیادہ افضل تھےاُن کو چالیس ہجری سترہ رمضان جمعہ کے دن جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے‘ شہید کر دیاگیا، اسی طرح حضرت عثمان غنی  رضی اللہ عنہ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے افضل ہیں، جنہیں چھیالیس ہجری عید الاضحی کے بعد ان ہی  کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن لوگوں نے ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کیا،اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی ) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے،  شہید کر دیا گیا، لیکن ان کے قتل کے دن بھی اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا، اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن کو بھی کسی نے ماتم کا دن قرار نہیں دیا۔

اوریہی اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے  ،کہ کسی مسلمان پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں ،آگے حضرت امام ابن کثیر  نےفرماتے  ہیں کہ یہ محرم منانا ماتم وغیرہ کرنا یہ سب اہل تشیع کی عادت اور  طریقہ ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال: «قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، فرأى ‌اليهود ‌تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا، قالوا: هذا يوم صالح، هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسى. قال: فأنا أحق بموسى منكم، فصامه وأمر بصيامه."

(باب صيام يوم عاشوراء، ج:3، ص:704، ط:دار ابن كثير)

وفیہ ایضا:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت:‌كانوا ‌يصومون ‌عاشوراء قبل أن يفرض رمضان، وكان يوما تستر فيه الكعبة، فلما فرض الله رمضان، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (من شاء أن يصومه فليصمه، ومن شاء أن يتركه فليتركه."

‌‌ (باب: قول الله تعالى: {جعل الله الكعبة البيت الحرام قياما للناس …، ج:3، ص:578، ط:دار ابن كثير)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي موسى رضي الله عنه قال: « ‌كان ‌أهل ‌خيبر ‌يصومون يوم عاشوراء، يتخذونه عيدا، ويلبسون نساءهم فيه حليهم وشارتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: فصوموه أنتم."

(‌‌باب صوم يوم عاشوراء، ج:3، ص:150، ط:دار الطباعة العامرة)

وفیہ ایضا:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت: « ‌كانت ‌قريش ‌تصوم عاشوراء في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه فلما هاجر إلى المدينة، صامه وأمر بصيامه، فلما فرض شهر رمضان، قال: من شاء صامه، ومن شاء تركه ."

(‌‌باب صوم يوم عاشوراء، ج:3، ص:146، ط:دار الطباعة العامرة)

فتح الباری میں ہے:

''( قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى )

"أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها.''

(ج:10، ص:497، ط:دارالمعرفة بیروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و روی الحسن بن زیاد إذا عزی أهل المیت مرةً فلاینبغي أن یعزیه مرةً أخری، کذا في المضمرات. و وقتها من حین یموت إلی ثلاثة أیام و یکره بعدها إلا أن یکون المعزی أو المعزی إلیه غائبًا فلا بأس به."

(کتاب الصلاة، الباب الحادي و العشرون، الفصل السادس، ج:1 ص:167،، ط:مکتبه رشیدیه)

البدایہ والنہایہ میں ہے:

"فكل مسلم يبنغي له أن يحزنه قتله رضي الله عنه، فإنه من سادات المسلمين، وعلماء الصحابة وابن بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم التي هي أفضل بناته، وقد كان عابدا وشجاعا وسخيا، ولكنه لا يحسن ما يفعله الشيعة من إظهار الجزع والحزن الذي لعل أكثره تصنع ورياء، ‌وقد ‌كان ‌أبوه ‌أفضل ‌منه فقتل، وهم لا يتخذون مقتله مأتما كيوم مقتل الحسين، فإن أباه قتل يوم الجمعة وهو خارج إلى صلاة الفجر في السابع عشر من رمضان سنة أربعين، وكذلك عثمان كان أفضل من علي عند أهل السنة والجماعة، وقد قتل وهو محصور في داره في أيام التشريق من شهر ذي الحجة سنة ست وثلاثين، وقد ذبح من الوريد إلى الوريد، ولم يتخذ الناس يوم قتله مأتما، وكذلك عمر بن الخطاب وهو أفضل من عثمان وعلي، قتل وهو قائم يصلي في المحراب صلاة الفجر ويقرأ القرآن، ولم يتخذ الناس يوم مقتله مأتما، وكذلك الصديق كان أفضل منه ولم يتخذ الناس يوم وفاته مأتما، ورسول الله صلى الله عليه وسلم سيد ولد آدم في الدنيا والآخرة، وقد قبضه الله إليه كما مات الأنبياء قبله، ولم يتخذ أحد يوم موتهم مأتما يفعلون فيه ما يفعله هؤلاء الجهلة من الرافضة يوم مصرع الحسين."

(ج: 8، ص:221، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100711

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں