بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام کے مہینہ میں نیا لباس پہننا


سوال

کیا محرم کے مہینے میں نیا سوٹ پہن سکتے ہیں؟

جواب

محرم الحرام کے مہینہ میں نیا لباس پہننا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے،  اور  محرم کے مہینہ  میں باقاعدہ غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا یہ سب چیزیں شرعاً غلط ہیں؛ شریعتِ مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ  شوہر کے علاوہ کسی کے انتقال کے بعد تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں،   حضرت زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ان کے والد حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر شام سے پہنچی، تو حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے دن زرد رنگ (جو بطورِ  خوش بوعورتیں استعمال کرتی تھیں) منگوایا، اور اپنے چہرے اور ہاتھوں پر لگایا، اور فرمایا: میں اس سے مستغنی ہوں، (یعنی مجھے بناؤ سنگھار کی ضرورت یا شوق نہیں ہے، اس لیے میں یہ کام نہ کرتی) اگر میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ: اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے شوہر کی وفات پر کہ اس میں چار ماہ دس دن سوگ منائے۔ 

صحيح البخاري (2/ 78):

"عن زينب بنت أبي سلمة، قالت: لما جاء نعي أبي سفيان من الشأم، دعت أم حبيبة رضي الله عنها بصفرة في اليوم الثالث، فمسحت عارضيها، وذراعيها، وقالت: إني كنت عن هذا لغنية، لولا أني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج، فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشراً»".

باقی جو محرم کے مہینہ میں سوگ منانے کی یہ وجہ بتائی جاتی ہے کہ   اس مہینے میں نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا ہے تو اس بارے میں  علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ہر مسلمان کے لیے مناسب یہ ہے کہ اس کو حضرت حسین  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا واقعہ غمگین کر دے، اس لیے کہ وہ مسلمانوں کے سردار اور اہلِ علم صحابہ  رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تھے۔ آپ جناب رسول اللہ ﷺ کی سب سے افضل لختِ جگر کے بیٹے یعنی آپ علیہ السلام  کے نواسے تھے، آپ عبادت کرنے والے، بڑے بہادر اور بہت زیادہ سخی تھے، لیکن اس دن یوں غم نہ منائے اور جزع فزع نہ کرے جیساکہ روافض کرتے ہیں،  اس لیے  آپ کے والد (حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ) آپ سے زیادہ افضل تھے، اُن کو چالیس ہجری سترہ رمضان جمعہ کے دن جب کہ وہ اپنے گھر سے نمازِ فجر کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، شہید کر دیاگیا، لیکن انہوں اس دن کو ماتم نہیں بنایا، اسی طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اہلِ سنت والجماعت کے نزدیک حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ سے افضل ہیں، جنہیں پینتیس ہجری عید الاضحی کے بعد انہی کے گھر میں شہید کر دیا گیا، لیکن لوگوں نے ان کے قتل کے دن کو بھی اس طرح ماتم نہیں کیا،اسی طرح حضرت عمر بن خطاب  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ان دونوں حضرات (حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے افضل ہیں، جن کو مسجد کے محراب میں نماز کی حالت میں جب کہ وہ قراء ت کر رہے تھے، شہید کر دیا گیا، لیکن ان کے قتل کے دن بھی اس طرح ماتم نہیں کیا جاتا، اور جناب نبی اکرم ﷺ  جو دنیا وآخرت میں بنی آدم کے سردار ہیں ، ان کی وفات کے دن کو بھی کسی نے ماتم کا دن قرار نہیں دیا۔‘‘

البداية والنهاية ط إحياء التراث (8 / 221):

فكل مسلم يبنغي له أن يحزنه قَتْلِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ مِنْ سَادَاتِ الْمُسْلِمِينَ، وَعُلَمَاءِ الصَّحَابَةِ وَابْنُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّتِي هِيَ أَفْضَلُ بناته، وقد كان عابداً وشجاعاً وسخياً، ولكنه لَا يُحْسِنُ مَا يَفْعَلُهُ الشِّيعَةُ مِنْ إِظْهَارِ الْجَزَعِ وَالْحُزْنِ الَّذِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُ تَصَنُّعٌ وَرِيَاءٌ، وقد كان أبوه أفضل منه فقتل، وَهُمْ لَا يَتَّخِذُونَ مَقْتَلَهُ مَأْتَمًا كَيَوْمِ مَقْتَلِ الْحُسَيْنِ، فَإِنَّ أَبَاهُ قُتِلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى صَلَاةِ الْفَجْرِ فِي السَّابِعَ عَشَرَ مِنْ رَمَضَانَ سَنَةَ أَرْبَعِينَ، وَكَذَلِكَ عُثْمَانُ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ عَلِيٍّ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ، وَقَدْ قُتِلَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي دَارِهِ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ مِنْ شَهْرِ ذِي الْحِجَّةِ سَنَةَ سِتٍّ وَثَلَاثِينَ، وَقَدْ ذُبِحَ مِنَ الْوَرِيدِ إِلَى الوريد، وَلَمْ يَتَّخِذِ النَّاسَ يَوْمَ قَتْلِهِ مَأْتَمًا، وَكَذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ أَفْضَلُ مِنْ عُثْمَانَ وَعَلِيٍّ، قُتِلَ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ صَلَاةَ الْفَجْرِ ويقرأ القرآن، وَلَمْ يَتَّخِذِ النَّاسُ يَوْمَ مَقْتَلِهِ مَأْتَمًا، وَكَذَلِكَ الصِّدِّيقُ كَانَ أَفْضَلَ مِنْهُ وَلَمْ يَتَّخِذِ النَّاسُ يَوْمَ وَفَاتِهِ مَأْتَمًا، وَرَسُولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَيِّدَ وَلَدِ آدَمَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَقَدْ قَبَضَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ كَمَا مَاتَ الأنبياء قبله، ولم يتخذ أحد يوم موتهم مَأْتَمًا يَفْعَلُونَ فِيهِ مَا يَفْعَلُهُ هَؤُلَاءِ الْجَهَلَةُ مِنَ الرَّافِضَةِ يَوْمَ مَصْرَعِ الْحُسَيْن۔

نیز تعلیمات نبویہ ﷺ سے یہ درس ملتا ہے کہ شہادت  کا مرتبہ عظیم الشان مرتبہ ہے، یہ انتہائی سعادت کا مقام ہے، اور یہ ایسی نعمت ہے جس کے حصول کی تمنا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں شدت سے کی جاتی تھی، یہ ایسی چیز نہیں ہے جس پر غم منایا جائے۔ لہذا محرم الحرام کے مہینہ میں اس طرح سوگ منانا جائز نہیں ہے، اور اس مہینہ میں نیا لباس پہننا جائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں