بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم الحرام میں سوگ اور غم منانے کا حکم


سوال

کیا محرم الحرام میں سوگ  یا غم منانا ٹھیک ہے؟اور جب کوئی شہید ہوجائے تو کیا اس کے پیچھے رونا،غم منانا،نوحہ خوانی کرناٹھیک ہے؟

جواب

    حضرت حسین رضی اللہ  عنہ  کے واقعہ شہادت سے  دل  کا رنجیدہ اور  غمگین ہونا  ایک فطری عمل ہے  اور  اس پر صبر کرنا  مسلمانوں  کا شیوہ ہے، یہ  اسلامی تاریخ  میں ایک بہت بڑا صدمہ تھا، لیکن اس صدمہ پر صبر وتحمل کرنے کے بجائے   خلافِ شرع امور  ،  مثلًا: بآوازِ  بلند زور زور سے چلا کر رونا اور نوحہ خوانی  و سینہ کوبی،  کے ذریعے اس رسمی غم اور دکھ کو  ظاہر کرنا اسلام میں حرام  ہے۔

اسی طرح جب کوئی شہید ہوجائے تو  اس سے دل کا رنجیدہ وغمگین ہوجانا اور بے اختیار آنسووں کا جاری ہوجانا  بھی ایک فطری عمل ہے، لیکن اس پر صبر کرنے کے بجائے بلند آواز سے رونا ،واویلا کرنا، رسمی غم  و  دکھ کو ظاہر کرنے کے  لیے نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کرنا  شرعًا ناجائز  اور  حرام ہے۔ 

حدیث مبارک  میں ہے:

"وعن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية»."

(مشكوة المصابيح، کتاب الجنائز، باب دفن الميت، رقم الحدیث:1726، ج:1، ص:541، ط:المکتب الاسلامی)

ترجمہ:"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا " وہ شخص ہمارے راستے پر چلنے والوں میں سے نہیں ہے جو رخساروں کو پیٹے، گریبان چاک کرے اور ایام جاہلیت کی طرح آواز بلند کرے (یعنی رونے کے وقت زبان سے ایسے الفاظ اور ایسی آواز نکالے جو شرعا ممنوع ہے جیسے نوحہ یا واویلا کرنا وغیرہ وغیرہ)۔ "

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و يكره ‌النوح و الصياح و شق الجيوب في الجنازة و منزل الميت، فأما البكاء من غير رفع الصوت فلا بأس به، و الصبر أفضل، كذا في التتارخانية."

(کتاب الجنائز،الفصل الخامس فی الصلاۃ علی المیت،ج۱،ص۱۶۲،ط:دار الفکر)

وفیه أیضاً:

"و أما ‌النوح العالي فلايجوز، و البكاء مع رقة القلب لا بأس به، و يكره للرجال تسويد الثياب و تمزيقها للتعزية."

(کتاب الصلاۃ،باب الجنائز،فصل فی الصلاۃ علی الشھید،ج۱،ص۱۶۷،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200197

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں