بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم میں کالے رنگ کا دوپٹہ پہننا


سوال

اگر کوئی عورت محرم کے مہینہ میں کالے رنگ کے علاوہ کسی رنگ کا لباس پہنے لیکن دوپٹہ کالے رنگ کا پہنے تو اسکی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کالا   لباس خواہ وہ دوپٹہ ہو یا عمامہ ہو یا مکمل کپڑا ہو  ،اس لیے استعمال کرنا کہ اس سے مقصود ماتم ، تعزیہ  یا غم کا اظہار  ہو تو شرعاً ایسا لباس پہننا جائز نہیں ہے ،نیز محرم میں  كالے رنگ كا استعمال   باطل فرقہ روافض اور شیعہ کے شعائر میں  ہونے کی وجہ سے بھی ممنوع ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر عورت کا مقصود کالے دوپٹہ سے اظہار غم ،ماتم نہ بھی ہو تو بھی مشابہت کی وجہ سے ممنوع ہے ۔باقی  فی نفسہ سیاہ  لباس مثل دوسرے رنگوں کے لباس کے عورتوں کے لیے پہننا جائز ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي التتارخانية: ولا تعذر في لبس السواد، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فتعذر إلى ثلاثة أيام. قال في البحر: ‌وظاهره ‌منعها ‌من ‌السواد تأسفا على موت زوجها فوق الثلاثة"قوله: وفي التتارخانية إلخ) عبارتها: سئل أبو الفضل عن المرأة يموت زوجها، أو أبوها أو غيرهما من الأقارب فتصبغ ثوبها أسود فتلبسه شهرين أو ثلاثة، أو أربعة تأسفا على الميت أتعذر في ذلك؟ فقال: لا. وسئل عنها علي بن أحمد فقال: لا تعذر، وهي آثمة إلا الزوجة في حق زوجها فإنها تعذر إلى ثلاثة أيام. اهـ. (قوله: ‌وظاهره ‌منعها ‌من ‌السواد إلخ) أي فيقيد به إطلاق ما مر من أنه لا بأس بأسود. وأجاب ط بحمل ما هنا على صبغه لأجل التأسف ولبسه، وما مر على ما كان مصبوغا أسود قبل موت الزوج لتتوافق عباراتهم، لكن ينافيه إباحته في الثلاث تأمل."

(باب العدۃ ،فصل فی الحداد ،ج:3 ،ص:533 ،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

" (قوله: وندب لبس السواد)؛ لأن محمداً ذكر في السير الكبير في باب الغنائم حديثاً يدل على أن لبس السواد مستحب."

  (كتاب الخنثي،مسائل شتي،ج:6،ص:755،ط:سعيد)

مشكاة المصابيح ميں  هے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من ‌تشبه بقوم فهو منهم. رواه أحمد وأبو داود."

(كتاب اللباس،الفصل الثاني،ج:2،ص:1246ط:المکتب الاسلامی )

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(وعنه) : أي عن ابن عمر (قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - (‌من ‌تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب. قلت: بل الشعار هو المراد بالتشبه لا غير، فإن الخلق الصوري لا يتصور فيه التشبه، والخلق المعنوي لا يقال فيه التشبه، بل هو التخلق."

(کتاب اللباس،ج:7،ص:2782،ط:دارالفکر)

کفایت  المفتی میں ہے:

"(سوال )  بغیر تعزیت کے صرف بطور علامت غرض صحیح کے لئے سیاہ یا نیلا لباس پہننا جائز ہے یا نہیں ؟

  (جواب  از نائب امام مسجد فتح پوری دہلی )  صورت مذکورہ میں جب کہ ایسے کپڑے سے تعزیت مقصود نہیں تو بلا کراہت ایسے لباس کا استعمال جائز ہے فقط واللہ تعالیٰ اعلم و علمہ اتم و احکم مظفر احمد غفرلہ نائب امام مسجد فتح پوری ‘ دہلی  

(جواباز حضرت مفتی اعظم ؒ) ہو الموفق - سیاہ لباس کا استعمال تعزیت کے طورپر ہونے کے کوئی معنی نہیں یہ لباس بطور ماتمی نشان کے استعمال کیا جاتا ہے خواہ کوئی کپڑا  سیاہ پہنا جائے مثلا ً سیاہ شیروانی یاسیاہ عمامہ وغیرہ یا ایک سیاہ کپڑا عمامہ  پر یا بازو یا کسی دوسرے موقعہ پر لگالیا  جائے تو یہ صورت بہرحال ناجائز اور شعار روافض میں سے ہے اور ماتمی علامت اور نشان مقصود نہ ہو تو سیاہ رنگ مثل دوسرے رنگوں کے استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ۔  فقط محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی  ۔"

(کتاب الحظر و الاباحہ ،ج:9 ،ص:159 ،ط:دار الاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں