بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد الحق نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

محمد الحق  نام رکھنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر "محمد الحق" میں  ترکیبِ اضافی ہو، اور لفظِ "محمد" سےاُس کے لغوی معنیٰ مراد لیے جائیں، یعنی  وہ شخص جس کی تعریف کی گئی ہے(تعریف کردہ)، تو اس اعتبار سے  درست معنیٰ بنتا ہے، یعنی حق (اللہ جل شانہ) کا تعریف کردہ، جیسا کہ "محمود الحق"، "محبوب الحق" وغیرہ نام ہیں،  اسی طرح اگر لفظِ "محمد" سے معنیٰ کے بجائے فقط لفظ مراد لیا جائے اور اس کی اضافت "الحق" کی طرف کی جائے تو بھی معنیٰ درست ہے، یعنی حق کا محمد، جیسا کہ "رضاء الحق"، "عبدالحق" وغیرہ نام ہیں، لہٰذا ترکیبِ اضافی کے اعتبار سے یہ نام رکھنا جائز ہے، لیکن ترکیبِ توصیفی کے اعتبار سے اس کا معنی درست نہیں بنتا، اس لیے مناسب یہ ہے کہ "محمد الحق" نام نہ رکھا جائے، بلکہ  الحق کی طرف عبد کی اضافت کرکے "عبد الحق" نام رکھنا بہترہے، تاہم اگر کسی نے رکھ لیا  ہو تو اسے بدلنابھی ضروری نہیں۔

شرح المصابيح لابن الملك میں ہے:

"‌الحق": الذي تحقق وتيقن وجوده من غير شك، ضد الباطل الذي هو المعدوم، فهو من ‌صفات الذات. وقيل: معناه المحق؛ أي: المظهر للحق، أو الموجد للشيء حسب ما تقتضيه الحكمة، فيكون من ‌صفات الأفعال."

(كتاب الدعوات، باب أسماء الله تعالى، ٣/ ١٠٧، ط:إدارة الثقافة الإسلامية)

درر الحكام شرح غرر الأحكام میں ہے:

"(والقسم بالله أو باسم من أسمائه كالرحمن، والرحيم، والحق) ... والحق من أسماء الله تعالى، قال الله تعالى ذلك بأن الله هو ‌الحق."

(كتاب الأيمان، أنواع اليمين، ٢/ ٤٠، ط:دار إحياء الكتب العربية)

المعجم الوسیط میں ہے:

"(‌الحق) اسم من أسمائه تعالى والثابت بلا شك وفي التنزيل العزيز {إنه لحق مثل ما أنكم تنطقون} ويوصف به فيقال (قول حق) ويقال هو العالم حق العالم متناه في العلم وهو حق بكذا جدير به والنصيب الواجب للفرد أو الجماعة (ج) حقوق وحقاق وحقوق الله ما يجب علينا نحوه وحقوق الدار مرافقها."

(باب الحاء ، ١/ ١٨٨، ط:دار الدعوۃ)

فتاویٰ  شامی میں ہے:

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة، ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى.

قال عليه في الرد: (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التاترخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفا بأل."

(كتاب الحظر والإباحة، فصل في البيع، فرع، ٦/ ٤١٧، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں