لڑکے کا نام "محمد" رکھنا کیسا ہے؟ از راہِ کرم راہنمائی فرمائیں
سعادتوں اور برکتوں کے حصول کے لیے نیز محبت وعقیدت میں نامِ نامی اسمِ گرامی ’’محمد‘‘ (ﷺ)" کی نسبت سے اپنی اولاد کا نام ’’ محمد‘‘ رکھنے کو علماء وصلحاء نے انتہائی مستحسن قرار دیاہے، اور بعض احادیث میں اس کے فضائل بھی وارد ہیں ۔
حدیث مبارک میں ہے:
"سمّوا بإسمي، ولا تكنوا بكنيتي".
(صحیح مسلم،کتاب الاداب،رقم الحد يث: 2131، 1682/3،ط: دار احیاء التراث العربی)
یعنی میرے نام پر نام رکھو، البتہ میری کنیت اختیار نہ کرو۔
رد المحتار میں ہے:
"(أحب الأسماء إلی اللہ تعالی عبد اللہ وعبد الرحمن)....وتفضیل التسمیة بہما محمول علی من أراد التسمی بالعبودیة، لأنہم کانوا یسمون عبد شمس وعبد الدار، فلا ینافی أن اسم محمد وأحمد أحب إلی اللہ تعالی من جمیع الأسماء، فإنہ لم یختر لنبیہ إلا ما ہو أحب إلیہ ہذا ہو الصواب ولا یجوز حملہ علی الإطلاق اہ. وورد " من ولد لہ مولود فسماہ محمدا کان ہو ومولودہ فی الجنة رواہ ابن عساکر عن أمامة رفعہ قال السیوطی: ہذا أمثل حدیث ورد فی ہذا الباب وإسنادہ حسن اہ."
(رد المحتار علي الدر المختار، كتاب الحظر والإباحة، 417/6، سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144402100493
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن