بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد معیز نام رکھنے کا حکم


سوال

کیا ’’محمد معیز‘‘ نام رکھنا درست ہے؟

جواب

مُعَيْز(میم کے پیش، عین کے زبر اور یاء کے سکون کے ساتھ، زُبَیر کی طرح) لفظِ مَعْزکی تصغیر ہے، اس کا معنٰی ہے: بالوں والی بکری کا چھوٹا سا بچہ۔ حدیث کے ایک راوی گزرے ہیں "ابن مُعَيْزٍ" جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ پایا ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زیارت نہیں کرسکے، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، اس اعتبار سے یہ تابعی ہیں؛ لہٰذا محمد مُعَيْزنام رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

البتہ مَعِيْز(میم کے زبر اور عین کے زیر کے ساتھ، معز کی جمع) اور  مُعِيْز (میم کے پیش اور عین کے زیر کے ساتھ) نام رکھنا درست نہیں ہے۔

اگر یہ لفظ آخر میں ذال کے ساتھ ہو یعنی مُعِيْذتو میم کے پیش اور عین کے زیر کے ساتھ بھی یہ نام رکھ سکتے ہیں۔ "مُعِيْذ"کا معنی ہے: پناہ دینے والا۔

أسد الغابة (ج:5، ص:346، ط: دار الفكر - بيروت):

’’ابن معيز: (د ع) ابن معيز، بالزاي. أدرك النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ و لم يره. روى عنه أبو وائل، يروي عن عبد الله بن مسعود. أخرجه ابن منده، و أبو نعيم.‘‘

الإكمال في رفع الارتياب عن المؤتلف و المختلف في الأسماء و الكنى و الأنساب (ج:7، ص:205، ط: دار الكتب العلمية):

’’و أما معيز بضم الميم و فتح العين و سكون الياء المعجمة باثنتين من تحتها و بالزاي فهو عبد الله بن معيز السعدي، روى عن ابن مسعود في قتل ابن النواحة صاحب مسيلمة الكذاب، روى عنه أبو وائل.‘‘

القاموس المحيط (ص:526، ط: مؤسسة الرسالة):

’’و عبدُ اللهِبنُ معَيْزٍ، كَزُبَيْرٍ: تابِعِيٌّ.‘‘

درر الحكام شرح غرر الأحكام (ج:1، ص:177، ط: دار إحياء الكتب العربية):

’’و المعز اسم جنس لا واحد له من لفظه و هي ذوات الشعر من الغنم، الواحدة شاة و هي مؤنثة و تفتح العين و تسكن و جمع الساكن أمعز و معيز مثل عبد و أعبد و عبيد و ألف المعزى للإلحاق لا للتأنيث و لهذا تنون في النكرة و تصغر على مُعَيْزٍ و لو كانت للتأنيث لم تحذف اهـ.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144202200321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں