بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد عباد علی نام رکھنے کا حکم


سوال

"محمد عباد علی" نام کا کیا معنی ہے؟ اس کا معنی ٹھیک ہے یا نہیں؟

جواب

"محمد" نبی کریم ﷺ کا نام ہے، جس کے معنی ہیں "بے حد تعریف کیاگیا"اور"عِبَاد "  (عین پر زیر کے ساتھ، باء کی تشدید کے بغیر )عبد کی جمع ہے، بمعنی بندے ،  غلام ، محکوم ،جب کہ" علی " کامعنی ہے"بلند و برتر"، نیز لفظِ 'علی' مطلق اور مقید دونوں طرح استعمال ہوتا ہے،مطلق سے مراد تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،جیسے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر وَهُوَ ‌الْعَلِيُّ ‌الْعَظِيمُ اور وَهُوَ ‌الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ  وغیرہ استعمال  ہوا ہے،اور مقید سے مراد "حضرت علی رضی اللہ عنہ"ہیں،اور بسا اوقات کسی خاندانی نام و نسبت کے لیے بھی "علی"نام استعمال کیا جاتا ہے۔

مذکورہ تفصیل کی روشنی میں ’’محمدعباد علی‘‘(بغیر اضافت کے)  میں اگر "علی"والد کا یا کوئی خاندانی نام و نسبت وغیرہ ہو تو یہ نام رکھنا جائز ہے۔

لیکن اگر  مذکورہ نام میں "عباد "کی "علی "کی طرف نسبت و اضافت مقصود ہو یعنی "محمد عبادِ علی"  تو  ایسی صورت میں  بھی مذکورہ نام رکھنا درست ہے،کیوں کہ  عام طور پر ایسے ناموں میں  ’’ علی رضی اللہ عنہ کا غلام‘‘ کا معنی ملحوظ ہوتا ہے،اسی طرح اگر نسبت والد وغیرہ کی طرف ہو تو بھی یہی معنی ہوسکتا ہے، نیزلغوی اعتبار سے اللہ تعالی کا بندہ ہونا بھی مراد لیا جاسکتا ہے،اور اس اعتبار سے اس نام کی گنجائش  ہے۔

لیکن لفظِ ’’عبد‘‘  میں بندگی کا معنی  موجودہونے کی وجہ سے ’’علی رضی اللہ عنہ کا بندہ‘‘  ہونے کا بھی اشتباہ آجاتا ہے، جس کی وجہ سے اس نام کے اندر شرک کااشتباہ پیدا ہوسکتا ہے،اور نام کا معنیٰ شرکیہ ہوجاتا ہے،اس وجہ سے محمد عباد علی نام نہ رکھا جائے ،بلکہ صرف 'محمد عباد'یا'محمد علی ' نام رکھا جاۓ،یا ایسا نام رکھا جاۓ جس میں عبد کی اضافت، اللہ یااس کے اسمائے حسنیٰ کی طرف ہو،یا دیگر انبیاء کرام ، صحابہ اور صلحاء کے ناموں میں سے کسی نام کا انتخاب کرلیا جاۓ۔

سنن ابو داؤد ميں ہے:

"عن أبي الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنكم تدعون يوم القيامة بأسمائكم، وأسماء آبائكم، فأحسنوا أسماءكم."

(كتاب الأدب، باب في تغيير الأسماء،334/2،ط:رحمانیة)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وروى الحاكم في الكنى، والطبراني عن أبي زهير الثقفي مرفوعا " ‌إذا ‌سميتم فعبدوا " أي: انسبوا عبوديتهم إلى أسماء الله، فيشمل عبد الرحيم، وعبد الملك وغيرهما. ولا يجوز نحو عبد الحارث ولا عبد النبي، ولا عبرة بما شاع فيما بين الناس."

(كتاب الآداب، باب الأسامي،الفصل الأول،11/9،ط:العلمیة)

فيض القديرمیں ہے:

"(‌إذا ‌سميتم فعبدوا) بالتشديد بضبط المصنف: أي إذا أردتم تسمية نحو ولد أو خادم فسموه بما فيه عبودية لله تعالى كعبد الله وعبد الرحمن لأن التعليق بين العبد وربه إنما هو العبودية المحضة والإسم مقتض لمسماه فيكون عبد الله وقد عبده بما في اسم الله من معنى الإلهية التي يستحيل كونها لغيره."

(حرف الهمزة،385/1،ط:المکتبة التجاريةالكبري)

الاصابہ فی تمییز الصحابہ میں ہے:

"4505- عبّاد الشيبانيّ:

ذكره البغويّ، وقال: روى إبن وهب من طريق أبي عبد الرّحمن المعافريّ، عن عبّاد الشّيبانيّ، قال: قال رسول اللَّه: «من قال بعد المغرب أو الصّبح: لا إله إلّا اللَّه وحده لا شريك له … » الحديث.‌‌‌ذكر ‌من ‌إسمه عباد، بكسر أوله والتخفيف."

( عباد الشيباني،504،3،ط:العلمیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410100148

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں