بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد ہمیل نام رکھنا


سوال

میرا بیٹا 22 مارچ کو پیدا ہوا ہے، میں اس کا نام" محمد ھمیل اویس " رکھنا چاہتی ہوں،اس کا صحیح مطلب بتادیں اور یہ بھی کہ  اس کے لیے یہ نام رکھنا کیسا ہے؟ اگر صحیح نہیں ہے تو وقت اور دن کے حساب سے الفاظ بتا دیں،تاکہ اس کا نام رکھا جائے۔

جواب

واضح رہے کہ جیسے مفرد نام (ایک لفظ والا نام) رکھنا جائز ہے ایسے ہی مرکب نام (ایک سے زائد الفاظ پر مشتمل نام ) رکھنا بھی جائز ہے،  جیسے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں محمد اکبر، محمد اوسط اور محمد اصغر نام کے بیٹے بھی تھے  ،  البتہ مفرد نام رکھنا زیادہ بہتر ہے؛ کیوں کہ نبی کریم ﷺ نے اپنی اولاد کا مفرد نام رکھا تھا،تاہم اگر برکت کے حصول کے لیے نام کے شروع یا آخر میں ’’محمد‘‘ یا ’’احمد‘‘ بڑھایا جائے تو یہ مستحسن ہے،تاہم شریعت میں وقت اور دن کے حساب سے نام رکھنے کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

پس ہمَیْل" (هُمَیْل:یعنی ہاء کے پیش اور میم کے زبر کے ساتھ) کا معنی ہے: ایسا بہنے والا پانی جس کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو، اور یہ ایک حضرمی صحابی کا نام ہے، جنہوں نے اپنے بھائی حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ سمیت رسولِ اکرم ﷺ سے بیعت کی،اور'اویس'یہ ”اوس“ کی تصغیر ہے اور ”اوس“ کے معنی ”بھیڑیا“کے بھی آتے ہیں اوراس کے معنی "عطیہ" کے بھی آتے ہیں ، ایک  مشہور تابعی کانام بھی اویس  (قرنی)  ہے،مسلم شریف میں ان کی فضیلت رسول اللہﷺسے منقول ہے۔ عطیہ کا معنی اور صاحبِ فضیلت تابعی کی نسبت (دونوں )کا لحاظ کرتے ہوئے اویس اور معنی کی درستگی اور صحابی کا نام ہونے کی وجہ سےھمیل نام رکھنا درست ہے ،لہذا  "محمد ھمیل اویس"نام رکھنا بھی درست ہے، تاہم ناموں کے سلسلے میں ہمارے ویب سائٹ پر اسلامی نام کے عنوان کے تحت اچھے ناموں کا ذخیرہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

لنک ملاحظہ ہو۔اسلامی نام/جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤنhttps://www.banuri.edu.pk/islamic-name 

"صحیح مسلم" میں ہے:

'' عن عمر بن الخطاب، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن خير التابعين رجل يقال له: ''أويس''، وله والدة وكان به بياض فمروه فليستغفر لكم."

(‌‌كتاب فضائل الصحابة رضي الله تعالى عنهم، ‌‌باب من فضائل أويس القرني، ج:2، ص:311، ط: قدیمی )

"الطبقات الكبرى "میں ہے:

   "عَلِيّ بْن أَبِي طَالِب. رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ…وكان له من الولد الحسن والحسين وزينب الكبرى وأم كلثوم الكبرى. وأمهم فاطمة بنت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ومحمد بن علي الأكبر وهو ابن الحنفية…ومحمد الأصغر بن علي قتل مع الحسين. وأمه أم ولد…ومحمد الأوسط بن علي وأمه أمامة بنت أبي العاص بن الربيع بن عبد العزى بن عبد شمس بن عبد مناف."

(تراجم الصحابة، ‌‌الطبقة الأولى على السابقة في الإسلام ممن شهد بدرا، الرقم:25، ج:3، ص:17، ط: دار الكتب العلمية)

"الفقه الإسلامي وأدلته "میں ہے:

"ويجوز التسمية بأكثر من اسم واحد، والاقتصار على اسم واحد أولى، لفعله صلّى الله عليه وسلم بأولاده."

(‌‌خطة بحث العبادات، ‌‌البَاب الثَّامن: الأُضحِية والعَقِيقَة، ‌‌الفَصْلُ الثّاني:‌‌ العَقِيقة وأحكامُ المولود، ‌‌المبحث الثاني ـ أحكام المولود، ج:3، ص:643، ط: دار الفکر)

"لسان العرب " میں ہے:

"أُوَيْسُ تصغير أَوْسٍ وهو من أَسْماء الذِّئب."

(الجزء الأول ' أ '، ‌‌فصل الحاء المهملة، ج:1، ص:56، ط: دار صادر  بيروت)

"المحیط فی اللغہ" میں ہے:

"والأوْسُ: العَطَاءُ."

(‌‌حَرْفُ السِّين، ‌‌بابُ اللَّفِيف، ‌‌ما أوَّلُهُ الأَلِف، ج:8، ص:418، ط: عالم الكتب بيروت)

"تاج العروس من جواهر القاموس" میں ہے:

" والهَمَل:  الماءُ السّائِلُ  الَّذِي لَا مَانِعَ لَهُ ... وَكَزُبَيْرٍ : هُمَيْل بن الدَّمُون أَخو  قَبِيصَةَ : ( صَحابِيٌّ ) ، وَلِقَبِيْصَةَ صُحْبة  أَيْضًا ، ذَكَرهما ابْنُ مَاكُولَا ، وَقَد  أَنْزَلَهُما النَّبِيّ - صَلَّى اللَّهِ تَعَالَى عَلَيْهِ  وَسَلَّمَ - في ثَقِيف."

(المادة، ه، م، ل، ج:31، ص:163، ط: دار إحياء التراث العربي)

"الإصابة في تمییز الصحابة "میں ہے:

"هميل بن الدمون بن عبيد بن مالك الثقفي.

"بايع النبي صلى الله عليه وآله وسلم هو وأخوه قبيصة ذكره بن ماكولا وذكره أبو الحسن المدائني في كتاب أخبار ثقيف وقال: إنه حضرمي حالف ثقيفاً هو وأخوه وسكن الطائف ثم وقع لأخيه قبيصة مع بني مالك حادث فأرادوا قتله فهرب منهم هو وأخوه والشريد بن سويد فأسلموا وذلك قبل إسلام ثقيف وقدوم وفدهم."

 (الهاء بعدها النون، ج:6، ص:435، ط: دار الكتب العلمية)

"فتاوی شامی  "میں ہے:

"(قوله: أحب الأسماء إلخ) هذا لفظ حديث رواه مسلم وأبو داود والترمذي وغيرهم عن ابن عمر مرفوعا. قال المناوي وعبد الله: أفضل مطلقا حتى من عبد الرحمن، وأفضلها بعدهما محمد، ثم أحمد ثم إبراهيم اهـ....وتفضيل التسمية بهما محمول على من أراد التسمي بالعبودية، لأنهم كانوا يسمون عبد شمس وعبد الدار، فلا ينافي أن اسم محمد وأحمد أحب إلى الله تعالى من جميع الأسماء، فإنه لم يختر لنبيه إلا ما هو أحب إليه هذا هو الصواب ولا يجوز حمله على الإطلاق اهـ. وورد " «من ولد له مولود فسماه ‌محمدا كان هو ومولوده في الجنة» رواه ابن عساكر عن أمامة رفعه قال السيوطي: هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن اهـ ."

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب الاستبراء وغيره، ج:6، ص:417، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100676

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں