میاں محمد بخش صاحب کا نام موزوں نہیں لگتا، کہیں کوئی ایسی وضاحت موجود ہے کہ میاں صاحب نے اس پر غور کیا ہو؟ رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ جن ناموں کے معنی سے شرک کا وہم ہورہاہو، شرعاً ایسے نام رکھنا جائز نہیں ہے، ’’محمد بخش ‘‘ کا معنی ہے،" محمد کا بخشاہوا"۔
(ماخوذ:ازتسہیل المبتدی، قواعد اسم مفعول سماعی، ص:21، ط:مکتبۃ البشری)
یہ نام معنی کے اعتبار سے موہمِ شرک ہے، لہذا اس نام کا رکھنا ہی جائز نہیں ہے، باقی موصوف کے اپنے نام سے متعلق وضاحت اور پھر میاں صاحب نے اس پر غور کیا کہ نہیں؟ یہ ہمارے علم میں نہیں ہے۔
مجموعۃ الفتاوی میں ہے:
"ہمچو اسم کہ ایہام مذموم غیر مشروع سازد، احتراز لازم بایں سبب علماء از تسمیہ بعبدالنبی وغیرہ منع ساختہ اند"۔
(کتاب الکراہیۃ، ج:4، ص:337، ط:امجد اکیڈمی لاہور)
مرقاۃ المفاتیح شرحِ مشکوۃ المصابیح میں ہے:
"ولايجوز نحو عبد الحارث ولا عبد النبي، ولا عبرة بما شاع فيما بين الناس."
(باب الاسامى، ج:7، ص:2997، ط:دارالفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144410100312
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن