بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محمد ایان نام رکھنا کیسا ہے؟


سوال

میرے بیٹے کا نام محمد ایان ہے،وہ چھ سال کا ہے،کیا یہ نام رکھنا درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ہمارے عرف میں بعض لوگ قرآن سے کوئی لفظ نکال کر  نام رکھنے کو بابرکت  سمجھتے ہیں، قطع نظر اس بات کے کہ یہ لفظ کس  معنی میں استعمال ہوا ہے، یا یہ کہ نام رکھنے کے متعلق شرعی تعلیمات کے مطابق یہ نام ہے بھی یا نہیں؟ یہ نظریہ قابلِ اصلاح ہے۔

صورت ِمسئولہ میں لفظ "أيّان" (نون پر زبر  ،  اور یاء  کی تشدید  کے ساتھ) ہے ، اور یہ لفظ بھی قرآن میں استعمال ہوا ہے جس کو بنیاد بنا کر لوگ اسے بطورِ نام رکھ لیتے ہیں، حالانکہ کلامِ عرب میں یہ  شرط   اور استفہام كے ليے استعمال ہوتاہے، جس کا معنی  "جب" اور "کب" ہے، جب کہ "اَیَان"( "یا ء" کی تشدید کے بغیر) کوئی بامعنی لفظ نہیں ہے، اس لیے بچے کا نام اَیَّان یا "اَیَان" دونوں طرح سے رکھنا مناسب نہیں ہے۔ محمد ایان (خواہ یاء کے شدکے ساتھ ہو یا بغیرشد کے)کے بجائے ’’محمدعَیَّان‘‘ (عین کے زبر اور یا کی تشدید کے ساتھ) نام رکھا جا سکتا ہے، جس کا ایک معنی کشادہ آنکھوں والا  آتاہے؛ لہٰذا "محمد عیان" نام رکھ سکتے ہیں۔ یا انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ناموں میں سے کوئی نام رکھ لیا جائے۔

القاموس الوحید میں ہے:

"أَیَّان:برائے شرط بمعنی"جب"جیسے:أيان تضرب أضرب:جب تم ماروں گے میں ماروں گا۔(2)برائے استفہام بمعنی"کب"جیسے:أيان ترجع:تم کب لوٹو گے۔(3)ظرفِ زمان برائے مستقبل جیسے:أيان تبعثون۔"

(القاموس الوحید،ص:120ط: ادارہ اسلامیات لاہور۔کراچی)

وفيه أيضا:

"عَيِنَ -ِ عَيناً وَعِينَةً:کشادہ اور خوبصورت آنکھ والا ہونا۔هوأعين وهي عيناء ج:عِين۔"

(القاموس الوحید،ص:923ط: ادارہ اسلامیات لاہور۔کراچی)

مارواه الإمام أبو داود:

"عن أبي الدرداء رضي اللّٰہ عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنکم تدعون یوم القیامة بأسماء کم وأسماء آباء کم فأحسنوا أسماء کم."

(باب في تغییر الأسماء، ج:4، ص:442، ط:دار الکتاب العربي بیروت)

ترجمہ:"حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام رکھاکرو۔"

وفي الفتاوی الهندیة:

"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه و سلم و لا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط."

(کتاب الکراهیة، الباب الثاني والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم والعقيقة، ج:5، ص:362، ط:دار الفکر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101664

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں