بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معاہدہ اور معاملات کے متعلق تفصیلی سوال


سوال

  زید نے بکر کو ایک قطعہ زمین سڑک کے شمال کی طرف اس شرط پر دی کہ وہ ہمواری زمین پلاٹنگ کمرشل پر جو خرچہ آئے گا برداشت کرے گا، فروخت ہونے کے بعد قیمت فروخت پر زید  60 فیصد ، بکر 40 فیصد کا حق دار ہوگادکان کی قیمت کم از کم تین لاکھ  اور پلاٹ کی  قیمت کم از کم پانچ لاکھ ہوگی یعنی اس  سے کم پر فروخت نہیں کرے گا اور اس سے زیادہ کی کوئی قید نہیں، یعنی بکر کے ذمہ زمین ہموار کرنا، نقشہ بنوانا، دکانوں اور پلاٹوں کی حد بندی شامل ہے، پلاٹوں اور دکانوں کے بکنے کے بعد زید کو 60 فیصد اور بکر کو 40 فیصد مقرر کردہ  سے ملے گااور زمین کے ایک ایک انچ کو بکر ہر قسم کے قبضہ مافیا سے محفوظ رکھنے کا پابند ہوگا، معاہدہ ہونے کے بعد اس میں بکر کی مہارت، ایمانداری، معاملات دیکھ کر اس سے متصل سڑک کے دوسری جانب جنوبی طرف والی زمین نئے سرے سے نئے ایگریمنٹ کے تحت دی جائے گی، اب اس معاہدے کے متعلق چند سوالات ہیں۔

1۔کیا اصل مالک(زید) اس معاہدہ کی بناء پر اپنے حق ملکیت سے دستبردار ہوگا اور محروم ہوگا؟  یعنی ابھی اس کا مالک کون ہے؟

(2) اگرزید نےمعاہدے سے پہلے ایک کارنر والی جگہ مسجد کے لیے وقف کردی تو کیا بکر کو اختیار ہےوہ کسی دوسرے حصے پر مسجد بنائےاس پہلی جگہ کو چھوڑ کرجہاں آمد ورفت بھی نہ ہولیکن بکر مسجد دوسری جگہ بنانا چاہ رہا ہے جہاں آمدو رفت بھی نہیں ہے، کیا اس کا یہ فعل صحیح ہے؟

(3) کیا ہمیں شرعاً اختیار ہے کہ ہم بکر سے اس بات کا ثبوت مانگیں اس نے کون سی زمین بیچی اور کس کو بیچی تاکہ نفع کا تعین ہو سکے اور ہم حساب کتاب چیک کرسکتے ہیں؟ اور وہ ہمیں حساب کتاب دینے کا پابند ہے یا نہیں؟ جب کہ ہمیں اس کی باتوں پر اعتماد نہیں

(4) بکر نے دونوں جانب میں کچھ حصہ بلا عوض علاقے کے سرکردہ افراد  کو دیا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اور کس کے حساب سے کاٹا جائے گا؟

(5) بکر  نے ایک تیسرے شخص کو دکان اور پلاٹ نقد زیادہ قیمت میں بیچی لیکن اس نے زید  کو حساب کتاب میں کم قیمت میں ادھار فروخت دکھلائی پھر اسی سے نقد خرید کر آگے زیادہ قیمت میں بیچ دی اور بکر کا زید کو ایسا دکھانا اس وجہ سے ہے تا کہ اس سے اصل رقم سے حساب نہ کرنا پڑے آیا بکر کا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں  مذکورہ معاہدہ کی بناء  زید کی ملکیت کا حق ختم نہیں ہوا بلکہ مذکورہ زمین کا  مالک بدستور زید ہی ہے۔

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

المادة (1248) أسباب التملك ثلاثة:

الأول , الناقل للملك من مالك إلى مالك آخر كالبيع والهبة.

الثاني: أن يخلف أحد آخر كالإرث.

الثالث: إحراز شيء مباح لا مالك له

            (الباب الرابع فی بیان شرکۃ الاباحۃ، ص/240، ط/نور محمد)

2۔ صورتِ مسئولہ میں جب زید  مذکورہ زمین کا مالک ہے اور  اس نےزمین کے کارنر والے پلاٹ کو مسجد کے لیے وقف کردیا تو یہ وقف کرنا صحیح ہوا،بکر پر لازم ہے کہ جو جگہ زید نے مسجد کے لیے وقف کی تھی اسی جگہ مسجد بنائے، اس کے لیےزید کی اجازت کے بغیر دوسری جگہ  مسجد بنانا جائز نہیں۔ 

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

(المادة 96) : ‌لا ‌يجوز ‌لأحد ‌أن ‌يتصرف في ملك الغير بلا إذنه

            (المقالۃ الثانیۃ فی بیان القواعد الکلیۃ الفقھیۃ، ص/27، ط/نور محمد)

3۔ صورتِ مسئولہ ميں زید کے لیے بکر سےخرید و فروخت کی تفصیل جاننا اور  حساب کتاب کا مطالبہ کرنا جائز ہے، شرعاً بکر  پر لازم ہے کہ وہ زید کو تمام  تفصیلات اور حساب کتاب کا معاملہ دکھاکر مطمئن کرے۔

4۔  بکر کے لیے زمین کا کچھ حصہ علاقے کے سرکردہ افراد کو بغیر معقول عوض کےدینا جائز نہیں، بکر کے ذمہ لازم ہے کہ وہ مذکورہ زمین واپس لے اور اب وہ لوگ جن کو زمین دی تھی وہ زمین واپس نہ لوٹائےتو بکر کے ذمہ اس زمین کی قیمت ادا کرنا ہوگی لیکن اگر ان سرکردہ افراد کو دیے بغیر اس زمین کو محفوظ بنانا اس  پر کام کرنا، اسے قابل فروخت بنانا ممکن نہ ہو تو نقصان دونوں کو برداشت کرنا ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

ويجب على الغاصب رد عينه على المالك وإن عجز عن رد عينه بهلاكه في يده بفعله أو بغير فعله فعليه مثله إن كان مثليا كالمكيل والموزون فإن لم يقدر على مثله بالانقطاع عن أيدي الناس فعليه قيمته

            (کتاب الغصب، ص/119، ج/5، ط/رشیدیہ)

5۔ بکر کا کسی شخص کو فرضی طور پر کم قیمت میں ادھار پلاٹ فروخت کرنا پھر اس سے نقد رقم کے  بدلے خریدنے کا معاہدہ کر کے آگے زیادہ قیمت پر فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں۔یہ محض دھوکہ ہے اور زید سے اصل رقم جو نقد تھی اس کے مطابق ہی حساب کیا جائے گا۔

صحیح مسلم میں ہے:

عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا»

            (کتاب الایمان، ص/70، ج/1، ط/قدیمی)

فتاوی شامی میں ہے:

لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي

            (باب التعزیر، ص/61، ج/4، ط/سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144303101069

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں