بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ میں شراب کی بو ہو تو مسجد میں آنے کا حکم/ دینی مجلس میں بیٹھنےکا طریقہ/ صحابہ کی حضور کی مجلس میں بیٹھنے کی کیفیت اور اس سے متعلق ایک روایت کی تحقیق/کمیٹی نکلنے پر بغیر طیبِ خاطر ناشتہ اورمسجد کے لیے پیسےلینا


سوال

۱۔منہ سے شراب کی بدبو آرہی ہو تو ایسی حالت میں مسجدمیں داخل ہونےکاکیاحکم ہے؟

۲۔ صحابہ کرام آپ کی مجلس میں ایسےبیٹھتےتھےکہ ان پرچادرڈال دی جائے تو جھول باقی نہ رہے، کیایہ حدیث ہے؟اگرہے تو ارسال فرمائیں۔

۳۔تفسیریاتبلیغ ووعظ کی مجلس میں مل مل کربیٹھناچاہیے، یاجو جہاں بیٹھناچاہےبیٹھ سکتاہے؟صحابہ کرام آپ کی مجلس میں کیسےبیٹھاکرتےتھے؟ رہنمائی فرمائیں۔ جب مروّجہ تبلیغ کاعمل ہوتا ہےتو مشارکین بہت زیادہ مل مل کربیٹھتےہیں اورفجرکےبعدجب تفسیر کی جاتی ہےتو جوجہاں بیٹھا تھا وہیں بیٹھےسنتاہے۔

۴۔ہمارےعلاقےمیں کمیٹی ڈالی جاتی ہے،جب کسی کی کمیٹی نکلتی ہےتو اس سے یہ کہہ کر پیسےلیے جاتےہیں کہ پانچ سو رپےناشتہ کےلیےدو، ایک ہزارمسجدکےلیےدو، اوران پیسوں کو کمیٹی کاذمہ دارااپنےلیےلےلیتا ہےاورکہتاہےکہ میں نےناشتہ کےلیےلیےہیں، یہ سودنہں ہے، اس طرح وہ ہرایک سے اچھی خاصی رقم لےلیتاہے۔

جواب

۱۔صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص کے منہ سےواقعی شراب کی بدبو آرہی ہواور وہ ہوش وحواس میں ہو تو اس پر لازم ہے کہ نماز سے پہلے منہ کو اچھی طرح صاف کرکے پاکیزہ ہوکرمسجد میں داخل ہو، اگر وہ شراب کےنشہ کی وجہ سےہوش وحواس میں نہ ہو توشرعاً اسے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے، البتہ اگر پاکی حاصل کرنے کے باوجود منہ سے صرف بدبو آرہی ہو ، ہوش وحواس بحال ہوں تواگر وہ اسی حالت میں مسجد میں داخل ہوکر جماعت میں شریک ہوتا ہے جس کی وجہ دوسرے نمازیوں کو تکلیف ہوتی ہے تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص گناہ گار  ہوگا۔

۲۔سائل نے جو الفاظ ذکر کیے ہیں کہ"صحابہ کرام آپ کی مجلس میں ایسے بیٹھتے تھے کہ ان پر چادر ڈال دی جائے تو جھول باقی نہ رہے"،تلاش کرنے کے باوجود حدیث کی کتابوں میںمذکورہ   الفاظ سےہمیں  کوئی روایت  نہیں ملی، لہذا جب تک صحیح سند سے اس  کا ثبوت  نہ ہوجائے، اس وقت تک اس کوبیان کرنے سے احتراز کیا جائے ۔

البتہ  ا یک روایت میں  آپ صلی اللہ  علیہ وسلم  کی مجلس  میں صحابۂ کرام کے بیٹھنے کی   کیفیت یوں نقل کی گئی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں  اس طرح توجہ سےبے حس وحرکت تشریف فرماہوتے تھے گویا ان کے سروں پرپرندے بیٹھے ہوں،چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  ہم لوگ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک جنازہ میں نکلے،جس وقت قبر تک پہنچے تو قبرتیار نہیں ہوئی تھی ، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اورہم لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے،گویا کہ ہم لوگوں کے سروں پر پرندے تھے(مطلب یہ ہے کہ ہم لوگ باادب ہوکر خاموش طریقہ سے  بیٹھ گئے)۔

۳۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم انتہائی ادب واحترام اورخاموشی کے ساتھ بیٹھتے تھےاور کسی بھی ایسے عمل سے مکمل اجتناب برتتے تھے جس میں ذرہ برابر بے ادبی کاشائبہ موجود ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں اونچی آواز سے بات کرنےکو خلافِ ادب گردانتے تھے،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مجلس میں صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم کےبیٹھنے کی کیفیت یوں نقل کی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں یوں بےحس وحرکت بیٹھتے تھے گویا اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے اجازت ہوتی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گفتگو بھی فرماتے، لیکن اس گفتگو میں بھی آپ کی تکریم وتعظیم کا لحاظ ہوتا، اور اگر کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت بھی کرنی ہوتی تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو ملحوظ رکھتےاور الفاظ کے چناؤ میں بھی حددرجہ احتیاط فرماتے، لہذا  کوئی بھی دینی مجلس ، خواہ درسِ قرآن کی مجلس ہو،یا تبلیغ ووعظ کی مجلس ہو،  سامعین کو اس میں  انتہائی ادب واحترام  اورپورے توجہ اوردھیان  کے ساتھ اور باہم مل جل کر   بیٹھنا چاہیے ۔

 ۴۔واضح رہے کہ کسی بھی مسلمان  کا مال  اس کی خوشی ورضامندیکے بغیر لیناحلال نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں کسی شخص کی کمیٹی  نکلنے پر  کمیٹی کے ذمہ دار کایہ کہہ کر اس سے رقم لینا کہ "پانچ سوروپےناشتہ کے لیے دو،ایک ہزارمسجد کے لیے دو"،یہ شرعاًجائز نہیں ہے۔

الدر مع الرد میں ہے:

‌"وأكلٌ ونومٌ إلاّ لمعتكف وغريب، ‌وأكلُ نحوِ ثُوم، ويمُنع منه(قوله ‌وأكلُ نحوِ ثُوم) أي كبصل ونحوه مما له رائحةٌ كريهةٌ للحديث الصحيح في النهي عن قربان آكل الثوم والبصل المسجد. قال الإمام العيني في شرحه على صحيح البخاري:"قلت: علّة النهي أذى الملائكة وأذى المسلمين ولا يختصّ بمسجده - عليه الصّلاة والسّلام -، بل الكلُّ سواءٌ لرواية مساجدنا بالجمع، خلافاً لمن شذّ ويَلحق بما نصّ عليه في الحديث كلُّ ما له رائحة كريهة مأكولاً أو غيره، وإنما خصّ الثُوم هنا بالذكر وفي غيره أيضاً بالبصل والكُرّاث لكثرة أكلهم لها".

(الدر مع الرد،کتاب الصلاۃ،باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا،ج:۱،ص:۶۶۱،ط:سعید)

سنن ترمذی میں ہے:

"عن جابر بن سمرة، قال: جالستُ النبيَّ صلّى الله عليه وسلّم أكثر من مائة مرة، فكان أصحابه يتناشدون الشعر، ويتذاكرون أشياء من أمر الجاهلية وهو ساكتٌ، فربما يتبسّم معهم."

(سنن ترمذی،ابواب الادب، باب ماجاء فی انشاد الشعر،ج:۵،ص:۱۴۰،رقم الحدیث:۲۸۵۰،ط:مصطفی البابی الحلبی)

سنن نسائی میں ہے:

"عن البراء قال: خرجنا مع رسول الله صلّى الله عليه وسلّم في جنازة، فلما انتهينا إلى القبر ولم يلحد، فجلس وجلسنا حوله كأنّ على رءوسنا الطير."

(سنن نسائی،کتاب الجنائز، الوقوف للجنائز،ج:۴،ص:۷۸، رقم الحدیث:۲۰۰۱،ط:مکتب المطبوعات الاسلامیۃ)

حاشیۃ السیوطی علی سنن النسائی میں ہے:

"قوله: وجلسنا حوله كأنّ على رُءوسنا الطيرَ. قال في النهاية: معناه: وصفُهم بالسكون والوقار وأنّهم لم يكن فيهم طيشٌ ولا خفّةٌ؛ لأنّ الطيرَ لا تكاد تقع إلاّ على شيءٍ ساكنٍ."

(حاشیۃ السیوطی علی سنن النسائی ،ج:۴،ص:۷۳،ط:مکتب المطبوعات الاسلامیۃ)

مرقاۃ المفایتح میں ہے:

"(وعن أنس رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلّى الله عليه وسلم إذا دخل المسجدلم يرفع أحدٌ) أي: من الصحابة (رأسَه) أي: رأس نفسه لهيبة مجلسه ورعاية الأدب حال انبساطه وأنسه، وأبعد شارح حيث قال أي: رأس النبي صلى الله عليه وسلم لاشتغاله بذكر الله تعالى (غير أبي بكر وعمر) ، بالرفع على البدلية من أحد، وفي نسخة بالنصب على الاستثناء (كانا يتبسمان إليه ويتبسم إليهما) ، استئناف بيان والتبسم مجاز عن كمال الانبساط فيما بينهم. (رواه الترمذي، وقال: هذا حديث غريب) . وفي " الرياض "، عن أنس: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يخرج على أصحابه من المهاجرين والأنصار وهم جلوس، فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلا أبا بكر وعمر، فإنهما كانا ينظران إليه، وينظر إليهما ويتبسمان إليه ويتبسم إليهما أخرجه أحمد والترمذي وقال: غريب، والمخلص الذهبي والحافظ الدمشقي. وعن أبي هريرة قال: كنا نجلس عند النبي كأن على رءوسنا الطير ما يتكلم أحد منا إلا أبو بكر وعمر".

(مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناقب والفضائل،باب مناقب ابی بکر وعمر،ج:۹،ص:۳۹۱۴،ط:دار الفکر)

مشکوۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرّة الرُقاشي عن عمّه قال: قال رسول الله صلّى الله عليه وسلّم: ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحلّ مال امرئ إلاّ بطيب نفس منه".

(مشکوۃ المصابیح،کتاب البیوع،باب الغصب والعاریۃ،رقم الحدیث:۲۹۴۶،ج:۲،ص:۸۸۹،ط:المکتب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100612

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں