بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مغل قوم کس کی اولاد ہے؟


سوال

مغل قوم کس کی اولاد ہے؟

جواب

مغلیہ دورِ حکومت کی مستند اور اہم ترین تاریخ "منتخب اللباب"جو  فارسی زبان میں شاہانِ مغلیہ کے تاریخی مآخذ میں سے ایک انتہائی اہم اور مشہور ماخذ ہے اور جس سے استفادہ کیے بنامغل تاریخ کے ایک بہت بڑے حصے کو سمجھنا ناممکن ہے، اس کےمصنف "محمد ہاشم علی  خافی (یا خوافی)خاں نظام الملک، جنہوں نے  دربارِ مغلیہ کے ظاہر و باطن کو بچشمِ خود دیکھا ہے اور تاریخِ مغلیہ کے غیر جانبدارومعتمد مؤرخ ہیں ،انہوں نے اپنی مذکورہ کتاب میں خانوادۂ مغل  كے نسب سے متعلق مستند تاریخی کتب سے  درج بالا سوال کی بابت جو کچھ  لکھا ہے  اس کا اردو ترجمہ  ذیل میں نقل کیا جارہا ہے:

"ترکوں کا مورثِ اعلیٰ:

بعض مؤرخین کے خیال کے مطابق ترکوں(یعنی مغلوں) کا جدِ اعلیٰ "ترک بن یافث بن نوح پیغمبر علیہ السلام"ہے،ترک اس کو "یافث اغلان(یا اوغلان)"کےنام سے یاد کرتے ہیں(ترک لغت میں"اوغلن"بمعنی ٰ"فرزند" ہے،جب کہ "اغلان" اور "اوغلان" دونوں"اوغلن "کی جمع ہیں  )   ،بعض دوسرے مؤرخین اس شخصیت کو "کیومرث" کا نام دیتے ہیں  اور کہتے ہیں کہ اسی کیومرث کے زمانے میں ،کھانے میں نمک ڈالنے،گھاس پھوس سے مکان بنانے،جانوروں کی کھال سے خیمے تیار کرنے اور نرم کھالوں کا لباس بنانے اور پہننے کا رواج ہوا،پھر جیسا جیسا زمانہ گزرتا گیا،ان ابتدائی صنعتوں میں تصرف و ارتقاء ہوتا رہا۔

ترکوں کے مورثِ اعلیٰ کے بارے میں اگرچہ بہت سے متضاد و مختلف بیانات ہیں، تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ"  ترکستان" میں سب سے پہلا شخص ،جس نے حکمرانی کا آغاز کیا، وہی تھا۔اس نے دوسو چالیس سال کی عمر پائی،تمام ایران و توران کے ترک قبیلوں اور ترک نسل کے حکمرانوں کا نسب اسی سے جاکر ملتا ہے، اس زمانے میں یہ رسم تھی کہ بیٹے کو باپ سے بجز تلوار اور اسلحۂ جنگ کے کوئی اور میراث نہیں ملتی تھی۔ 

مغول اور تاتار:

چار پانچ واسطوں کے بعد سلطنت کا وارث"انجہ خاں ثانی" ہوا،اسی زمانے میں ترکوں نے  شیطان کے بہکاوے میں آکر کفر و شرک کا راستہ اختیار کرلیا،پھر اسی حکمران قبیلہ میں دو توأم بچے  تولّد ہوۓ،ایک کا نام "تاتار "رکھا گیا اور دوسرے کا نام "مغول" ،باپ کے انتقال پرموروثی مملکت دونوں بھائیوں میں نصفا ً نصف تقسیم ہوگئی۔  

مغول تخت نشینی کے بعد"مغول خاں"کے لقب سے مشہور ہوا،وہ عظیم الشان بادشاہ گزرا ہے،فرماں روائی اور آبادکاری میں وہ اپنے آباؤ اجداد سے کئی درجہ بڑھ گیا اور اس نے "مغلستان "کی آبادی کی بنیاد رکھی،اکبر بادشاہ عرش آشیانی کے زمانے میں"مغل"کا لفظ اس قدر عام ہوگیا تھا کہ عجم کے ترک وتاجیک ہی نہیں، بلکہ ایران وتوران کے سید بھی اسی لفظ"مغل"سے پکارے جاتے تھے،لیکن اپنے حقیقی معنوں میں "مغل"کا اطلاق صرف "مغول خان" کے سلسلہ کے ترکوں پر ہی ہوسکتا ہے۔"

(مغلیہ دورِ حکومت،اردو ترجمہ"منتخب اللباب"،مترجم:محمود احمد فاروقی،خانوادۂ چنگیزی،ص:40،41، طباعت:نفیس اکیڈمی،اردو بازار،کراچی،سنِ اشاعت:1985)

 درج بالا تفصیل کی روشنی میں مغل قوم کا جد ِاعلیٰ "ترک بن یافث بن حضرت نوح علیہ السلام"ہے،جس کی نسل میں چار پانچ واسطوں کے بعد مغلوں کا جدِ امجد "انجہ خاں"(یا "النجہ خاں"،جیسا کہ" روضۃ الصفا"اور "حبیب السیر" میں منقول ہے)گزراہے،اور پھر" انجہ خاں "کے دو بیٹوں"تاتار خاں اور "مغول خاں" میں سے "مغول خاں"کی نسل ہی دراصل مغل قوم کہلائی ۔نيز منتخب اللباب ميں ذكر كرده مغليہ نسب كی تائيد    حاجی خلیفہ کی  کتاب"سُلّم الوصول الی طبقات الفُحول"میں ذکر کردہ تفصیل سے بھی ہوتی ہے۔

چناں چہ سلم الوصول الی طبقات الفحول میں حاجی خلیفہ نے "ترک بن یافث بن نوح علیہ السلام"ہی کو مغلوں کا مورثِ اعلیٰ قراردیا ہے:

"أبو الأتراك تُرك بن يافث بن نوح عليه السلام، أول ملوك الأتراك. ملك بعد موت أبيه في الشرق، فبنى داراً من الأخشاب واخترع خيمة واتخذ لباساً من جلود الحيوانات. وكان عاقلاً، متديناً بدين آبائه وخلَّف أولاداً خمسة منهم إيلجه ولما مرَّ من عمر ترك مائتان وأربعون سنة مات، وملك ابنه إيلجه خان كذا في تواريخ الشرق."

(باب التاء، أبو الأتراك تُرك بن يافث بن نوح عليه السلام،393،394/1، ط: مكتبة إرسيكا، إستانبول)

مغول خاں کے سگے بھائی تاتار خاں کا تعارف پیش کرتے ہوۓ رقم طراز ہیں :

"تاتار بن إلنجه بن كَيوك بن ديب باقوي بن إيلنجه بن ‌ترك ‌بن ‌يافث، أبو الطائفة المشهورة وأخو مغول لأب وأم. وكان أبوه إلنجه خان قسم ممالك الشرق بينهما، فبقي كل قسم معين في يد الأخوين وأولاده إلى الآن. وأبناء التاتار صاروا قبائل يقال لهم أويماق، واشتهرت من بينهم ثمانية: بوقا، يلنجه، أسلي، أتسز، أردو، بايدق، سونج، ثم اختلط أبناء المغول والتاتار وتفصيل أحوالهم في "الجامع الرشيدي."

(باب التاء، تاتار بن إلنجه إلخ،393/1، ط: مكتبة إرسيكا، إستانبول)

تاتار خاں اور مغول خاں کے والد النجہ خاں کے متعلق لکھتے ہیں :

"جدّ ملوك التُّرك النجه خان بن كيوك خان بن إيلجة بن ريب باقوي بن إيلجية بن ‌ترك ‌بن ‌يافث، الخامس من ملوك الترك.

كان عادلاً حليماً، فطغى أهل مملكته وكفروا بأنعم الله فقسم المملكة بين ابنيه تاتار ومغول وهما توأمان ومات، فملك كل منهما حصته المعينة من قبل أبيهما قرناً بعد قرن."

(جدّ ملوك التُّرك النجه خان إلخ،340/1، ط: مكتبة إرسيكا، إستانبول)

البدایۃ والنہایۃ میں ہے:

"أن نوحا ولد له ثلاثة ; وهم سام، وحام، ويافث، فسام أبو العرب، وحام أبو السودان ويافث أبو الترك، فيأجوج ومأجوج طائفة من الترك، وهم ‌مغل المغول."

(كتاب أخبار الماضين من بني إسرائيل وغيرهم، ذكر أمتي يأجوج ومأجوج وصفاتهم وما ورد من أخبارهم وصفة السد، ج:2، ص:552، ط: دار عالم الكتب)

الکامل فی التاریخ میں ہے:

"«قال النبي صلى الله عليه وسلم في قوله تعالى: {وجعلنا ذريته هم الباقين} [الصافات: 77] ، إنهم سام، وحام، ويافث» وقال وهب بن منبه: إن سام بن نوح أبو العرب، وفارس، والروم، وإن حاما أبو السودان، وإن يافث ‌أبو ‌الترك ويأجوج ومأجوج."

(‌‌ذكر ذرية نوح عليه السلام،72/1، ط: دار الکتاب العربي)

تاریخ ابنِ خلدون میں ہے:

"ثم اتفق النسابون ونقل المفسرون على أنّ ولد نوح الذين تفرّعت الأمم منهم ثلاثة:

سام وحام ويافث وقد وقع ذكرهم في التوراة، وأنّ يافث أكبرهم وحام الأصغر وسام الأوسط، وخرّج الطبري في الباب أحاديث مرفوعة بمثل ذلك وأنّ سام أبو العرب، ويافث أبو الروم، وحام أبو الحبش والزنج وفي بعضها السودان. وفي بعضها سام أبو العرب وفارس والروم، ويافث ‌أبو ‌التّرك والصقالبة ويأجوج ومأجوج، وحام أبو القبط والسودان والبربر، ومثله عن ابن المسيّب ووهب بن منبّه. وهذه الأحاديث وإن صحّت فإنّما الأنساب فيها مجملة ولا بدّ من نقل ما ذكره المحققون في تفريع أنساب الأمم من هؤلاء الثلاثة واحدا واحدا."

(‌‌الكتاب الثاني ويشتمل: أخبار العرب وأجيالهم ودولهم منذ مبدإ الخليقة الى هذا العهد،‌‌المقدّمة الاولى في أمم العالم واختلاف أجيالهم والكلام على الجملة في أنسابهم،ج:2، ص:8، ط: دار الفكر)

تاریخِ طبری میں ہے:

"إن سام بن نوح أبو العرب وفارس والروم، وإن حام أبو السودان، وأن يافث ‌ابو ‌الترك وابو يأجوج وماجوج."

(‌‌ذكر الأحداث التي كانت في عهد نوح ع،201/1،ط:دارالمعارف بمصر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412101498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں