اگر بائع او رمشتری کا ایک قیمت پر اتفاق ہوگیا ہو اور پیسے ادھار ہوں،پھر مشتری نے پیسے وقت پر ادا نہ کیےہوں بلکہ لیٹ ہوگئے تو بائع کے لیے یہ جائز ہیں کہ وہ اس چیز کی قیمت بڑھائیں مثلا: ان دونوں کا اتفاق دس لاکھ پر ہوا ہوں پھر مشتری نے پیسے لیٹ کردئیے تو بائع کے لیے 11,12لاکھ کا مطالبہ جائز ہے؟
صورتِ مسئولہ میں کوئی بھی چیز ادھار خریدتے وقت عقد میں جو رقم متعین ہوتی ہے،شرعی اعتبار سے مشتری کو اُسی مقررہ مدت میں وہ رقم ادا کرنا ضروری ہے،تاہم اگر مشتری کسی وجہ سے بروقت رقم ادا نہیں کرپایا تو بائع کے لیے مذکورہ قیمت میں اضافہ کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔مشتری کا رقم کی ادائیگی میں بلا وجہ تاخیر کرنا گناہ ہے اوراگر مشتری کسی مجبوری کی وجہ سے رقم ادا نہیں کرپارہا تو ادائیگی میں مہلت دے دینا کارِ ثواب ہے۔
درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:
"(المادة 374) البيع النافذ قد يفيد الحكم في الحال.
أي بمجرد وقوع العقد يفيد البيع النافذ الذي هو ملكية البائع للثمن والمشتري للمبيع وتصرف كل منهما فيما في يده ولا حاجة في ذلك إلى شيء آخر
(المادة 375) إذا كان البيع لازما فليس لأحد المتبايعين الرجوع عنه.
أي ليس لأحد المتبايعين أو ورثته في البيع النافذ اللازم أن يرجع عنه بدون رضاء الآخر بوجه من الوجوه.
أما الطرفان؛ فلهما بالتراضي أن يتقايلا البيع كما قد بين في الفصل الخامس للباب الأول."
(کتاب البیوع،الباب السابع في بيان أنواع البيع وأحكامه،الفصل الثاني في بيان أحكام أنواع البيوع،ج1ص401،ط؛دار الجیل)
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ۔والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال."
(کتاب الحدود،ج4،ص61،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144405101451
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن