بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منہ بولے بیٹے کے ساتھ عمرہ پر جانے کا حکم


سوال

کیا میں منہ بولے بیٹے کے ساتھ عمرہ کرنے جاسکتی ہوں؟ وضاحت فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ  عورتوں کے لیے سفرشرعی کی مسافت (48 میل) یا اس سے زیادہ اکیلے یعنی  بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں ہوں، عمرے کا سفر ہو یا کوئی اور سفر، کسی بھی حالت میں  محرم کے بغیر جانا جائز نہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے:

" حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا: اللہ تعالی اور آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ دن و رات کا سفر بغیر محرم کے کرے۔"

"حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی مرد کسی عورت سے تنہائی میں نہ ملے اور کوئی عورت سفر نہ کرے، مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو، تو ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ میرا نام فلاں غزوے (جہادی لشکر) میں لکھا گیا ہے، اور میری بیوی حج کے لیے نکل چکی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: اب تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔"

لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر منہ بولے بیٹے کے ساتھ محرمیت کا کوئی اور رشتہ ہو تو اس کے ساتھ عمرہ پر جانا جائز ہوگا اور اگر کوئی اور محرمیت کا رشتہ نہیں تو اس صورت میں عورت کا منہ بولے بیٹے کے ساتھ عمرہ پر جانا جائز نہیں ہوگا ، اگر چلی گئی تو بدونِ محرم سفر کا گناہ ہو گا، عمرہ ادا ہو جائے گا۔

حدیث میں ہے :

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:لا يحل لامرأة، تؤمن بالله واليوم الآخر، أن تسافر ‌مسيرة ‌يوم وليلة ليس معها حرمة".

(بخاری شریف ،ابواب تقصیر الصلاۃ،ج:1،ص:369،دار ابن کثیر )

وفيه أيضاّ:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل فقال: يا رسول الله، امرأتي ‌خرجت ‌حاجة، واكتتبت في غزوة كذا كذا، قال: ارجع فحج مع امرأتك".

(بخاری شریف ،باب لا یخلون رجل بامراۃ۔۔۔۔۔،ج:5،ص:2005،دارابن کثیر)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا  إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، ومن لا يجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة كذا في الخلاصة ويشترط أن يكون مأمونا عاقلا بالغا حرا كان أو عبدا كافرا كان أو مسلما هكذا في فتاوى قاضي خان والمجوسي إذا كان يعتقد إباحة مناكحتها لا يسافر معها كذا في محيط السرخسي والمراهق كالبالغ وعبد المرأة ليس بمحرم لها كذا في الجوهرة النيرة ولا عبرة للصبي الذي لا يحتلم والمجنون الذي لا يفيق كذا في محيط السرخسي وتجب عليها النفقة والراحلة في مالها للمحرم ليحج بها، وعند وجود المحرم كان عليها أن تحج حجة الإسلام، وإن لم يأذن لها زوجها، وفي النافلة لا تخرج بغير إذن الزوج، وإن لم يكن لها محرم لا يجب عليها أن تتزوج للحج كذا في فتاوى قاضي خان ثم تكلموا أن أمن الطريق وسلامة البدن - على قول أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - ووجود المحرم للمرأة شرط لوجوب الحج أم لأدائه، بعضهم جعلوها شرطا للوجوب وبعضهم شرطا للأداء، وهو الصحيح وثمرة الخلاف فيما إذا مات قبل الحج فعلى قول الأولين لا تلزمه الوصية وعلى قول الآخرين تلزمه كذا في النهاية".

(کتاب المناسک ،ج:1،ص:218،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101454

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں