بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرس کا چندہ کرنے اور اپنی واجب الادا زکات شامل کرکے مہتمم کو حوالہ کرنے کے بعد اس سے کمیشن لینا


سوال

میں ایک مدرسہ میں مدرس ہو ں اور ہمیں رمضان المبارک کے مہینے میں چندہ کے لیے ایک رسید بک دی  جاتی ہے،  اور پھر استاد جو رقم چندہ کرکے مدرسے کو دیتا ہے ،مدرسہ والے اس کو اپنے قبضہ میں لے کر اس میں سے ایک مخصوص فیصد (15 یا 20 فیصد) استاد کو دیتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ بعض اساتذہ اپنے اوپر واجب الادا زکات بھی اس میں دیتے ہیں ، مثلا کسی استاد نے بیس ہزار روپے عام لوگوں سے چندہ کیا اور اپنے اوپر فرض زکات میں سے دس ہزار ایڈ(شامل) کردیئے تو اب ٹوٹل تیس ہزار ہوگئے، تو اب سوال یہ ہے کہ مدرسے والے جو پندرہ بیس فیصد رقم استاد کو دیتے ہیں وہ استاد کے لیے لینا جائز ہے یا نہیں ؟ کیوں کہ استاد نے بھی اس میں دس ہزار زکات کے دئیے ہیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں   چندہ کرنے والے مدرس کے لیے  اس   رقم  کا لینا جائز نہیں  کیوں کہ اس میں کچھ حصہ زکات کی  ہے جو  بلا تملیک کے واپس مل رہا ہے اور زکات بلا تملیک  تنخواہ میں لینا دینا جائز نہیں ہے  اور  کچھ  حصہ   جو مل رہا ہے  چندہ سے، وہ بھی   کمیشن پر چندہ کرنے کی ایک شکل ہے، جو ناجائز ہے ؛ کیوں کہ معاوضہ کے ساتھ چندہ وصول یابی کا معاملہ ، اجارے کی شکل ہے، اور اجارے میں اجرت اور عمل دونوں کا معلوم ومتعین ہونا ضروری ہے،دونوں میں کسی ایک کی بھی جہالت اجارے کو فاسد کردیتی ہے۔ نیزاجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز سے اجرت مقرر کرنا بھی جائز نہیں۔ اور فیصدی کمیشن کے چندے میں یہ تینوں خرابیاں پائی جاتی ہیں، یعنی: اس میں اجرت بھی مجہول ہوتی ہے اور عمل بھی۔ اور سفیر کو اجرت، اُسی کے وصول کردہ چندے سے دی جاتی ہے ۔البتہ درج ذیل صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں جس میں چندہ کرنے والے مدرس کے لیے رقم لینا جائز ہوگا:

1.باقاعدہ ضابطے کے تحت  چندہ کرنے والے اساتذہ کے لیے چندے والے ایام کی تنخواہ طے کردی جائے، اور  پھر تنخواہ کے مصرف سے ہی تنخواہ ادا کی جائے۔

2.ادارہ یہ طے کردے کہ اتنا چندہ لےکرآئے تو اتنا انعام الگ سے دیاجائے گا، مثلاً  دس  ہزار روپے لائے تو پانچ سو  روپے بطورانعام کے دیے جائیں گے، لیکن جو چندہ سفیرکرے اس میں سے اجرت طے کرنا غلط ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل...وتفسد الإجارة بجهالة المسمى كله و بعضه."

(كتاب الإجارة،باب الإجارة الفاسدة،  :ج6، ص:48،46، ط:سعيد)

وفیه أیضاً:

"ولو دفع غزلا لآخر لينسجه بنصفه أو إستأجر بغلا ليحمله طعامه ببعضه أو ثورا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه - صلى الله عليه وسلم - عن قفيز الطحان."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، ج:6، ص:56، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا. ومنها بيان محل المنفعة..ومنها بيان المدة في الدور والمنازل والحوانيت وفي استئجار الظئر... ومنها أن لا تكون الأجرة منفعة هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة. ومنها خلو الركن عن شرط لا يقتضيه العقد ولا يلائمه."

(كتاب الإجارة، الباب الأول في تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ج:4، ص:411، ط:دار الفكر) 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائعمیں ہے:

"ومنها أن لا تكون منافع الأملاك متصلة بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفا إلى نفسه من وجه وعلى هذا يخرج الدفع إلى الوالدين وإن علوا والمولودين وإن سفلوا؛ لأن أحدهما ينتفع بمال الآخر ولا يجوز أن يدفع الرجل الزكاة إلى زوجته بالإجماع."

(كتاب الزكوة، فصل الذي يرجع إلى المؤدى إليه، ج:2، ص:49، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’سوال (8160): ہمارے یہاں مدرسہ کا چندہ ہوتا ہے ، اس میں سفراء کمیشن بھی لیتے ہیں ،  یہ کہاتک درست ہے، اور جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداومصلياً:اس طرح معاملہ کرنا کہ جس قدر چندہ لاؤ گے اس میں سے نصف یا ثلث وغیرہ تم کو ملے گا ، شرعاً درست نہیں ، اس میں اجرت مجہول ہے  نیز اجرت ایسی چیز کو قرار دیا گیا ہے جوعمل اجیر سے حاصل ہونے والی ہے کہ یہ دونوں چیز میں شرعا مفسد اجارہ ہیں ۔‘‘

(کتاب الاجارۃ، باب اجرۃ الدلال والسمسار، ج:16، ص:629، ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100249

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں