بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ذو القعدة 1446ھ 04 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں نقصان کا حکم


سوال

ہم نے دوائی کے کا روبار میں   رقم لگائی تھی ایک شخص کے پاس اور ہم نے دوسروں سے کاروبار کرنے کے لیے رقم لے کر لگائی تھی اس شخص  کے پاس اس شرط  کے ساتھ کہ ہم ان کو نفع دیں گے اور ایک سے ڈیڑھ سال تک کاروبار چلتا رہا اور سب کو نفع بھی ملتا رہا اور ان لوگوں کو بھی نفع ملتا رہا جن سے رقم لے کر لگائی تھی لیکن اب نقصان ہو گیا اور ساری رقم ڈوب گئی ہے ،ہماری رقم بھی ڈوب گئی جو کہ (38،00،000) اڑتیس لاکھ کی مالیت تھی اور دوسروں کی رقم بھی ڈوب گئی ہے جو کہ (30،00،000) تیس لاکھ روپےکی مالیت تھی ۔سوال یہ ہے کہ ہم پر وہ رقم ادا کرنا لازم ہے جو دوسروں کی لگی ہوئی تھی یعنی کہ (30،00،000) لاکھ روپے یا ادا کرنا لازم نہیں ہے اور اب وہ لوگ جن سے کاروبار کے لیے رقم لے کر لگائی تھی  اور ان کو نفع دیتے رہے اپنی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں تو کیا ان کی رقم واپس کرنے کے پابند ہیں یا نہیں ؟برائے مہربانی اس کی شرعی طور پر وضاحت فرمادیں ۔ 

وضاحت:پہلے ہم نے مضاربت کے لیے ایک شخص کواپنی ذاتی  رقم دی تھی  پھر دوسروں نے ہمیں مضاربت کے لیے رقم دی تھی اور اس بات کی اجازت دی تھی کہ ہم آگے اس رقم کو مضاربت کے لیے دے دیں ،نیز مضاربت میں ہماری اپنی ذاتی رقم بھی ڈوب گئی ہے۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکور معاملہ عقد مضاربت کا  ہےاور "مضاربت" کے معاملہ میں اصول یہ ہے کہ اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو اولاً نفع سے پورا کیا جاتا ہے اگر نقصان نفع سے پورا  ہوجائے تو فبہا ورنہ اس  نقصان کی ذمہ داری رب المال ( انویسٹر ) پر عائد ہوتی ہے بشرطیکہ اس نقصان میں مضارب (عامل) کا کوئی دخل نہ ہو یعنی وہ نقصان مضارب کی غفلت، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوا ہو ۔اگر نقصان مضارب کے قصور اور تعدی کی وجہ سے ہوا ہو تو اس نقصان کی ذمہ داری صرف مضارب پر عائد ہوتی ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے  صورت مسئولہ میں مذکور معاملہ میں جو نقصان ہوا ہےاگر وہ نقصان مضارب (عامل) کی غفلت و تعدی سے نہیں ہو اتو اس نقصان کو  سب سے پہلے اس نفع سے پورا کیا جائےگا   جو اس  مضاربت سے حاصل ہوا ہے اگر وہ نقصان نفع سے پورا ہوجائے تو فبہا اور اگر وہ نقصان نفع سے پورا نہ ہو تو پھر یہ نقصان  رب المال (سرمایہ دار ) کا شمار ہوگا سائل (مضاربِ اول ) یا دوسرے مضارب پر یہ  رقم ادا کرنا لازم نہیں ہے،اور نہ ہی سائل نقصان کی صورت  میں اس رقم کو واپس کرنے کا پابند ہے ۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي میں ہے: 

"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد".

(کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،ج:5،ص:67،ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) 

مجمع الضمانات  میں ہے:

"ثم المدفوع إلى المضارب أمانة في يده لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه لا على وجه البدل والوثيقة، وهو وكيل فيه لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه فإذا ربح فهو شريك فيه، وإذا فسدت ظهرت الإجارة حتى استوجب العامل أجر مثله، وإذا خالف كان غاصبا لوجود التعدي منه على مال غيره".

(باب في مسائل المضاربة،الفصل الأول في المضاربة،ص: 303،ط:دار اکتب الإسلامی)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر"۔

(کتاب المضاربۃ،باب المضارب یضارب،فصل فی المتفرقات فی المضاربۃ،ج:5،ص:656،ط:سعید)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 777) الوديعة أمانة بيد المستودع بناء عليه إذا هلكت أو فقدت بدون صنع المستودع وتعديه وتقصيره في الحفظ لا يلزم الضمان"۔

(‌‌الكتاب السادس: في الأمانات،‌‌الباب الثاني في الوديعة،‌‌الفصل الثاني: في أحكام الوديعة وضمانها،ص:148،ط:نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں