بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مقر اور مقر لہ کے درمیان مقربہ کی مقدار میں اختلاف ہو جائے تو قسم کس پر آئے گی؟


سوال

پانچ بھائیوں کی مشترکہ ملکیت سے ایک بھائی  نے درخت کاٹ کر لکڑیاں بیچ دیں ، پیسے پوچھنے پر ایک بھتیجے (امین اللہ)کے سامنے ذکر کیا کہ میرے پاس آپ لوگوں کے ساڑھے چار لاکھ روپے ہیں، اور سارا حساب میں نے ڈائری میں نوٹ کیا ہے،اچانک اس بھائی  کا انتقال ہو گیا ،جب  اس کے بیٹوں سے پیسوں کا مطالبہ کیا گیا تو وہ کہنے لگے کہ ہمارے پاس  ڈائری میں صرف نوے ہزار روپے لکھے ہیں، باقی رقم ہم نہیں مانتے ،جب اس بھتیجے(امین اللہ) نے وہ بیان سنایا کہ چچا نے میرے سامنے ذکر کیا تھا، تو اس پر ان بیٹوں نے کہا کہ قرآن یا قسم اٹھائیں ورنہ ہم نہیں مانتے، اب قرآن کون کرے گا وہ سننے والا بھتیجا (امین اللہ)یا  مرحوم  بھائی کے بیٹے ۔ہاں یہ ساڑھے چار لاکھ کا ذکر جس محفل میں کیا تھا اس محفل کے شرکاء کو پیسوں کا ذکر یاد ہے لیکن  متعین  پیسے یاد نہیں ہیں، ازروئے شریعت اس معاملے کا  حل نکال کر مشکور فرمائیں۔

جواب

زیرِ نظر مسئلہ میں مرحوم بھائی کے بیٹے مدعی علیہ  ( جس پر دعوی کیا جائے )  ہیں ،اور  امین اللہ اور  مرحوم کےدوسرے بھائی  مدعی( دعوی کرنے والے) ہیں ،مدعی اور مدعی علیہ کے ذمہ ہے کہ وہ کسی مسلمان حاکم ،قاضی شرعی  یا کسی عالم دین کی مجلس میں یا اثر   ورسوخ رکھنے والے دیندار شخص کے پاس اپنا مقدمہ پیش کریں جس کی کاروائی اس طرح ہو گی :

امین اللہ اور اس کے ساتھ دوسرے دعویداروں کے ذمہ ہے کہ وہ اپنے اس دعوی پر گواہ پیش کریں کہ مرحوم بھائی نے  ساڑھے چار  لاکھ کا اقرار کیا تھا،( متعین  رقم پر گواہ پیش کرنا ضروری ہے،محض اس بات پر گواہ  پیش کرنا کافی نہیں کہ اس نے کچھ رقم کا اقرار کیا تھا) اگر وہ گواہ پیش کردیتے ہیں تو اس گواہی کی بنیاد پر مرحوم بھائی کے بیٹوں کے ذمے ہو گاکہ وہ ترکہ میں سے دوسرے بھائیوں کو  ان کا ثابت شدہ حق  ادا کریں ،اور اگر مدعی کےپاس  اپنے دعوی پر شرعی گواہ نہ ہوں تو مدعی علیہ (مرحوم بھائی کے بیٹوں )پر قسم آئے گی ،وہ اس طرح قسم کھائیں گے کہ  ہمارے علم میں اس معاملہ میں ہمارے والد کے ذمے 90 ہزار روپے واجب ہوئے تھے،اس  سے زائد رقم ہمارے والد کے ذمے  واجب  نہیں ۔

اگر  مدعی علیہ قسم کھانے سے انکار کردے تو مدعی کے حق میں دعوی  ثابت ہو جائے گا،مدعی پر قسم نہ آئے گی۔

الهداية في شرح بداية المبتدي میں ہے:

"قال: "فإن قال: لفلان علي شيء لزمه أن يبين ما له قيمة لأنه أخبر عن الوجوب في ذمته، وما لا قيمة له لا يجب فيها"، فإذا بين غير ذلك يكون رجوعا.

قال: "والقول قوله مع يمينه إن ادعى المقر له أكثر من ذلك" لأنه هو المنكر فيه "وكذا إذا قال لفلان علي حق" لما بينا، وكذا لو قال: غصبت منه شيئا ويجب أن يبين ما هو مال يجري فيه التمانع تعويلا على العادة. "

(کتاب الاقرار،ج:3،ص:178،ط: دار الاحیاء)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501101414

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں