بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدت رضاعت میں امام صاحب رحمہ اللہ کی دلیل اور اس کی وضاحت


سوال

قرآن مجید میں آتا ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کی عمر دو سال تک ہے، دو سال کے بعد دودھ پلانے کا ذکر نہیں ہے، لیکن امام ابو حنیفہ نے ڈھائی سال تک دودھ پلانے کی گنجائش رکھی ہے(بچے کی کمزوری کی حالت میں)، میرے ایک جاننے والے کو کسی شخص نے کہا کہ کیا اللہ کو معلوم نہ تھا ، اللہ رب العزت تو زیادہ جاننے والے ہیں، اللہ تعالٰی نے ڈھائی سال کی گنجائش نہیں دی بلکہ دو سال کی اجازت دی ہے، پھر ڈھائی سال کا ثبوت کہاں سے ثابت ہے؟ امام اعظم ابو حنیفہ نے ڈھائی سال کی اجازت کیوں دی ہے براہ کرم حوالہ جات اور دلائل کی روشنی میں جواب ارسال کر دیجیۓ گا۔

جواب

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت  بیان کرنے سے پہلے،  حنفیہ کے ہاں رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت کے بارے میں مفتی بہ قول  جان لینا مناسب ہوگا، واضح رہے کہ احناف کے ہاں دودھ پلانے  کے اعتبار سے فتویٰ صاحبین کے قول پر ہے، یعنی بچے کو زیادہ سے زیادہ دو سال کی عمر تک دودھ پلانے کی اجازت ہے، اس کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں، الا یہ کہ شدید ضرورت ہو تو ڈھائی سال کی عمر تک دودھ پلانے کی گنجائش ہوگی۔  بہرحال اگر   دوسال پر دودھ چھڑایا نہیں گیا، اور بچے کی عمر ڈھائی سال  ہونے تک پلایا گیا تو   حرمتِ رضاعت  ثابت ہونے کے اعتبار سے فتوی امام اعظم رحمہ اللہ کے  قول پر ہے، یعنی 30 ماہ تک دودھ پینے سے رضاعت کی حرمت ثابت ہوگی۔

مدتِ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مقدار کا بیان:

 حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مدت رضاعت تیس مہینے یعنی ڈھائی سال ہیں، حضرات صاحبین کے یہاں مدت رضاعت چوبیس مہینے یعنی دو سال ہیں ۔

حضرات صاحبین کی دلیل:

 حضرات صاحبین کی دلیل سورۃ الاحقاف کی درجِ ذیل آیت ہے:

"وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرا"

"ترجمہ:اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے(میں پورا ہوتا) ہے۔"

(سورۃ الاحقاف، رقم الآیۃ:15، ترجمہ:بیان القرآن)

 اور وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حمل اور فصال دونوں کے لیے تیس ماہ کی مدت مقرر فرمائی ہے اور حمل کی کم سے کم مدت چھ مہینے ہے، لہذا جب تیس (30) مہینے میں سے چھ مہینے کو نکالیں گے تو لامحالہ چوبیس (24) مہینے باقی بچیں گے اور یہی رضاعت کی مدت  ہوگی۔

ان حضرات کی دوسری دلیل سورۃ البقرہ کی درجِ ذیل روایت ہے:

"وَالْوَالِدَات يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَين."

"ترجمہ:اور مائیں اپنے بچوں کو دوسال کامل دودھ پلائیں۔"

(سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:233، ترجمہ:بیان القرآن)

قرآن کریم کے مذکورہ ارشاد  میں واضح الفاظ میں دوسال کا ذکر ہے۔

ان حضرات کی تیسری دلیل درجِ ذیل حدیثِ شریف ہے:

"عن ابن عباس , قال: كان يقول:  «لا رضاع بعد حولين كاملين»".

(سنن الدارقطني، کتاب الرضاع، رقم الحدیث:4363، ج:5، ص:306، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

" لارضاع بعد الحولین "یعنی کہ دو سال کے بعد رضاعت کا کوئی وجود نہیں ہے،

لہذا ان آیات و آثار میں تو صاف لفظوں میں اس امر کی وضاحت ہے کہ دو سال ہی مدت رضاعت ہیں اور دو سال کے بعد نہ تو رضاعت کا ثبوت ہے اور نہ ہی وہ رضاعت محرِم بنے گی جیسا کہ اس کی تائید ابن عدی کی روایت سے بھی ہوتی ہے"لا يحرم من الرضاع إلا ما كان في الحولين" لہذا حضرات صاحبین کے نزدیک دوسال یہی مدت رضاعت ہوگی۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نقلی دلیل:

 حضرت امام عالی ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی دلیل بھی سورہ احقاف کی وہی آیت ہے جس سے سب سے پہلے صاحبین رحمہ اللہ  نے اپنی دلیل میں پیش فرمایا ہے، جو درجِ ذیل ہے:

"وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلاثُونَ شَهْرا."

"ترجمہ:اور اس کو پیٹ میں رکھنا اور دودھ چھڑانا تیس مہینے(میں پورا ہوتا) ہے۔ "

(سورۃ الاحقاف، رقم الآیۃ:15، ترجمہ:بیان القرآن)

اس آیت سے امام صاحب رحمہ اللہ کا وجہ استدلال یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فصال اور حمل دو الگ الگ چیزوں کی ایک ساتھ مدت بیان فرمائی ہے، لہذا مذ کورہ مدت دونوں کے لیے علیحدہ کامل طور پر ثابت ہوگی، جیسے اگر دو قرضوں کے لیے ایک ہی مدت بیان کی جائے مثلا کسی ایک  شخص کا  کسی دوسرے شخص پر قرض رقم کی شکل میں بھی ہو اور گندم وغیرہ کی شکل میں بھی ہو اور وہ یوں کہے میں ایک سال تک تمھیں اپنا قرض ادا کرنے کی مہلت دیتا ہوں تو یہ مدت ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے کامل طور پر ثابت ہوگی اور ان پر تقسیم نہیں ہوگی، اسی طرح آیت مذکورہ میں بھی  ثلاثون شهراوالی آیت مدت حمل اور فصال میں سے ہر ایک کے لیے کامل طور پر ثابت ہوگی اور تقسیم نہیں ہوگی۔

البتہ حمل اور فصال میں سے ایک یعنی حمل کے متعلق دلیلِ منقص ( کم کرنے والی دلیل ) موجود ہے اور وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج ذیل روایت ہے:

"عن جميلة بنت سعد , قالت: قالت عائشة رضي الله عنها:  «ما تزيد المرأة في الحمل على سنتين قدر ما يتحول ظل عود المغزل»".

(سنن الدارقطني، کتاب النکاح، باب المہر، رقم الحدیث:3874، ج:4، ص:499، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)

 یعنی بچہ دو سال سے زائد اپنی ماں کے پیٹ میں نہیں رہ سکتا ہر چند کہ آسمانی چرخہ ہی کیوں نہ ہو، اس دلیل منقص کے پیش نظر  مدت حمل سے تو چھ ماہ کی تخفیف کر کے اسے دو سال قرار دیاگیا ہے لیکن چوں کہ مدت رضاعت کے متعلق کوئی دلیلِ منقص نہیں ہے، اس لیے اس کے متعلق حکم قرآنی  ثلاثون شهرا اپنی اصل پر باقی رہے گا اوراس میں کسی بھی طرح کی کمی یا تخفیف نہیں ہوگی۔

امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی عقلی دلیل:

حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  کی عقلی دلیل کا حاصل یہ ہے کہ بچے کی سب سے پہلی غذا دودھ ہے اور ایّام کے گزرنے کے ساتھ اس میں تغیر و تبدل ہوتا ہے اور یہ بات بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ یک بارگی دودھ نہیں چھڑایا جاسکتا، لہذا دودھ چھڑانے کے لیے ایک ایسی مدت کا ہونا ضروری ہے جس میں بتدریج بچہ دودھ کو چھوڑ دے اور دیگر اشیاء خوردنی کو کھانے اور استعمال کرنے لگے، چنانچہ تجربات کے بعد یہ نتیجہ سامنے آیا کہ چھ مہینے کی مدت اتنی ہے جو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہونے میں مؤثر اور کارگر ہے، اس لیے امام صاحب نے نے "ثلاثون شهرا" میں چھ مہینے فصالِ لبن کے جوڑ دیے اور واضح لفظوں میں یہ بیان کر دیا کہ کل مدتِ حمل ڈھائی سال یعنی تیس(30) مہینے ہے۔

صاحبین رحمہ اللہ کی طرف سے پیش کردہ روایت کا محمل :

سننِ دارالقطنی والی روایت یعنی "لارضاع بعد حولین"  مدت رضاعت بیان کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس حدیث میں استحقاق اجرت کا معاملہ بیان کیا گیاہے اور حدیث شریف کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اگر مطلقہ عورت اپنے نوزائیدہ بچے کو اجرت لے کر دودھ پلائے تو اسے بالا تفاق دو سال ہی کی اجرت ملے گی ، دو سال سے زیادہ کوئی اجرت نہیں دی جائے گی ، لہذا جب اس حدیث کا مدت رضاعت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے، تو پھر اس سے استدلال کرنا کیوں کر درست ہے؟

صاحبین کی طرف سے پیش کردہ سورہ بقرۃ کی  آیت(وَالْوَالِدَات يُرْضِعْنَ أَوْلادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَين)  کا محمل بھی یہی استحقاقِ اجرت ہے  کیوں کہ قیاس و قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ آیت بھی استحقاق اجرت ہی پر محمول ہے، اس لیے کہ اس مضمون کے بعد قرآن کریم نے "فإن أرادا فصالا عن تراض منهما الآية" بیان کیا ہے اور حولین کے بعد دودھ چھڑانے کو رضامندی اور با ہمی خوشی پرمحمول کیا ہے، جو اس بات کا غماز ہے کہ اگر دو سال کے بعد دودھ پینا یا پلانا حرام ہوتا، تو اسے دو دو چار کی طرح منع کر دیا جاتا اور رضامندی  وغیرہ پر معلق نہ کیا جاتا۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام میں ہے:

"(ثم مدة الرضاع ثلاثون شهرا عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وقالا سنتان) وهو قول الشافعي - رحمه الله -وقال زفر: ثلاثة أحوال؛ لأن الحول حسن للتحول من حال إلى حال، ولا بد من الزيادة على الحولين لما نبين فيقدر به. ولهما قوله تعالى {وحمله وفصاله ثلاثون شهرا} [الأحقاف: 15] ومدة الحمل أدناها ستة أشهر فبقي للفصال حولان. وقال النبي - عليه الصلاة والسلام - «لا رضاع بعد حولين» وله هذه الآية. ووجهه أنه تعالى ذكر شيئين وضرب لهما مدة فكانت لكل واحد منهما بكمالها كالأجل المضروب للدينين، إلا أنه قام المنقص في أحدهما فبقي في الثاني على ظاهره، ولأنه لا بد من تغير الغذاء لينقطع الإنبات باللبن وذلك بزيادة مدة يتعود الصبي فيها غيره فقدرت بأدنى مدة الحمل؛ لأنها مغيرة، فإن غذاء الجنين يغاير غذاء الرضيع كما يغاير غذاء الفطيم، والحديث محمول على مدة الاستحقاق،وعليه يحمل النص المقيد بحولين في الكتاب.

ولأبي حنيفة - رحمه الله - هذه الآية. ووجهه أنه سبحانه ذكر شيئين وضرب لهما مدة فكانت لكل واحد منهما بكمالها كالأجل المضروب للدينين على شخصين بأن قال أجلت الدين الذي لي على فلان والدين الذي لي على فلان سنة يفهم منه أن السنة بكمالها لكل، أو على شخص فيقول لفلان علي ألف درهم وعشرة أقفزة إلى سنة فصدقه المقر له في الأجل، فإذا مضت السنة يتم أجلهما جميعا إلا أنه أقام المنقص في أحدهما: يعني في مدة الحمل، وهو قول عائشة - رضي الله عنها -: " الولد لا يبقى في بطن أمه أكثر من سنتين ولو بقدر فلكة مغزل ". وفي رواية: " ولو بقدر ظل مغزل ". ومثله مما لا يقال إلا سماعا؛ لأن المقدرات لا يهتدي العقل إليها وسنخرجه في موضعه إن شاء الله تعالى. وروي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - «الولد لا يبقى في بطن أمه أكثر من سنتين» فتبقى مدة الفصال على ظاهرها، غير أن هذا يستلزم كون لفظ ثلاثين مستعملا في إطلاق واحد في مدلول ثلاثين وفي أربعة وعشرين، وهو الجمع بين الحقيقي والمجازي بلفظ واحد، وكونه بالنسبة إلى شيئين لا ينفي كونه كذلك وهو الممتنع، وإلا لم يمتنع؛ لأنه ما من جمع إلا بالنسبة إلى شيئين...

ويمكن أن يستدل لأبي حنيفة - رحمه الله - بقوله تعالى {والوالدات يرضعن أولادهن} [البقرة: 233] الآية بناء على أن المراد من الوالدات المطلقات بقرينة {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن} [البقرة: 233] فإن الفائدة في جعله نفقتها من حيث هي ظئر أوجه منها في اعتباره إيجاب نفقة الزوجة؛ لأن ذلك معلوم بالضرورة قبل البعثة، ومن قوله تعالى {لينفق ذو سعة} [الطلاق: 7] الآية؛ ولأن نفقتها لا تختص بكونها والدة مرضعة بل متعلقة بالزوجية، بخلاف اعتبارها نفقة الظئر ويكون حينئذ أجرة لها؛ لأن النفقة لها باعتبارها ظئرا غير زوجة لا تكون إلا أجرة لها، واللام من لمن أراد متعلق بيرضعن: أي يرضعن للآباء الذين أرادوا إتمام الرضاعة وعليهم رزقهن وكسوتهن بالمعروف أجرة لهن في الحولين، وإذا كانت الواو من وعلى المولود له للحال من فاعل يتم كان أظهر في تقييد الأجرة المستحقة على الآباء أجرة للمطلقة لحولين، وغاية ما يلزم أنه كان مقتضى الظاهر أن يقال وعليه أو وعليهم لكن ترك للتنبيه على علة الاستحقاق عليه وهو كون الولد منسوبا إليه وأن النسبة إلى الآباء.

والحاصل حينئذ: يرضعن حولين لمن أراد من الآباء أن يتم الرضاعة بالأجرة، وهذا لا يقتضي أن انتهاء مدة الرضاعة مطلقا بالحولين، بل مدة استحقاق الأجرة بالإرضاع، ثم يدل على بقائها في الجملة قوله تعالى {فإن أرادا فصالا} [البقرة: 233] عطفا بالفاء على يرضعن حولين فعلق الفصال بعد الحولين على تراضيهما. وقد يقال: كون الدليل دل على بقاء مدة الرضاع المحرم بعد الحولين، فأين الدليل على انتهائها لستة أشهر بعدهما بحيث لو أرضع بعدها لا يقع التحريم..."

(کتاب الرضاع، ج:3، ص:444، ط:دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں