ہم دوبہنیں ہیں،میں نےاپنی بہن کی بیٹی کودودھ پلایاتھا،وہ چارماہ کی تھی،اس نےدودھ پی لیاتھا،اوردودھ اس کے حلق نیچے اترگیاتھا،اوروہ سوگئی تھی اورمیری بہن نے میرے بیٹے کودودھ پلایاتھا،جوپونےدن کاتھا،اس نے بھی دودھ پی لیاتھا،اورحلق سے نیچے اترگیااوروہ سوگیاتھا،اب میں اپنی ایک بیٹی جومیرے اس بیٹے سےچھوٹی ہے،جس نےمیری بہن کادودھ پیاہے،اپنی بہن کےاس بیٹے سےنکاح کرواناچاہتی ہوں ،جومیری بہن کی اس بیٹی سےچھوٹاہےجس نےمیرادودھ پیاتھا،اب سوال یہ ہے کہ کیامیری بیٹی اورمیرےبہن کےبیٹےکانکاح آپس میں درست ہے؟جبکہ میری اس بیٹی نے میری بہن کادودھ نہیں پیاہےاورمیری بہن کےبیٹے نےمیرادودھ نہیں پیاہے،وہ دودھ پینے والےالگ تھے،جوان دونوں سےبڑےہیں ۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کی مذکورہ بیٹی نے سائلہ کی بہن کا دودھ نہیں پیاہے، اور سائلہ کی بہن کےمذکورہ بیٹے نے بھی سائلہ کا دودھ نہیں پیا تو ان دونوں کے درمیان رضاعت کا کوئی رشتہ قائم نہیں ہوا۔ لہٰذا ان دونوں کا آپس میں نکاح شرعاً جائز ہے۔
ردالمحتارمیں ہے:
"في البحر عن آخر المبسوط: لو كانت أم البنات أرضعت أحد البنين وأم البنين أرضعت إحدى البنات لم يكن للابن المرتضع من أم البنات أن يتزوج واحدة منهن وكان لإخوته أن يتزوجوا بنات الأخرى إلا الابنة التي أرضعتها أمهم وجدها لأنها أختهم من الرضاعة."
(کتاب الرضاع،ج:3،ص:217،ط:سعید)
العقود الدريہ میں ہے:
"سئل: في امرأتين أجنبيتين أرضعت كل واحدة منهما أولادا معلومين للأخرى ثم ولدت إحداهما ذكرا والأخرى أنثى ولم يجتمعا على ثدي واحد بأن لم يرضع الذكر من أم الأنثى ولا الأنثى من أم الذكر أصلا فهل يسوغ للذكر التزوج بالأنثى؟
الجواب : نعم حيث لم يكن بينهما رضاع وتحل أخت أخيه رضاعا كما في التنوير وغيره."
(کتاب الرضاع،ج:1،ص:34،ط:دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144611102550
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن