بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسین کا تعلیمی اوقات میں غیر درسی مشاغل کا حکم


سوال

ہمیں جو تدریس کی تنخواہ ملتی ہے وہ تو وقت کے عوض ملتی ہے،اب یہ وقت ہمارےپاس امانت ہے، اس کو ذاتی کاموں میں استعمال کرنے کا کیا حکم ہے؟ مثلاً درمیان میں چائے پینا،  ناشتہ کرنا، مہمان کے ساتھ بیٹھنا، خالی گھنٹہ میں خارجی مطالعہ کرنا وغیرہ۔ نیز اگر کسی استاد نے کسی کلاس کا گھنٹہ جلدی پڑھایا یعنی سبق مختصر تھا مثلاً 40منٹ کا گھنٹہ تھا اور 25منٹ میں پڑھایا، اب یہ 15منٹ کہاں استعمال کریں؟

جواب

واضح رہے کہ مدرسہ جب کسی استاد کے لیے اوقات متعین کرتا ہےتو ان اوقات میں وہ اجیر خاص ہوتا ہے، چناں چہ ان اوقات میں اس استاد کو کوئی دوسرا کام کرنے کی اجازت نہیں ہے، تاہم وہ معمولی و مختصر کام جن پر عرفا چشم پوشی کی جاتی ہواور ان سے مدرسہ کے کام میں معتد بہ حرج نہ ہو یا وہ ضروریات میں سے ہو، ان کی اجازت تو دی جاسکتی ہے، لیکن اس کے علاوہ ان اوقات میں کسی ذاتی کام میں مشغول ہونا جو بطور اجیر کے ہو، جائز نہیں ہے۔

نیز اگر کوئی استاد جلدی سبق پڑھالے، تو بقیہ وقت درسگاہ میں طلبہ کی نگرانی کرے، یا ان کو نصیحت و سبق آموز واقعات سناکر ان کی اصلاح کرے، یا گزشتہ اسباق سنے، غرضیکہ طلبہ كي تعليم وتربيت سے وابسته سرگرمی جس كا اسے ذمہ دار بنايا گيا ہے اسی ميں اوقات كو   صرف کرے،تاہم طبعی و ذہنی انقباض کے پیشِ نظر کبھی کبھار علمی گفت و شنید  یا سبق کو موقوف کرکے تفننِ طبع کے خاطر طلبہ کے ساتھ مزاح و دل لگی کرنا بھی ثابت ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"حدثنا ‌عثمان بن أبي شيبة قال: حدثنا ‌جرير، عن ‌منصور، عن ‌أبي وائل قال: «كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس، فقال له رجل: يا أبا عبد الرحمن، لوددت أنك ذكرتنا كل يوم؟ قال: أما إنه ‌يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإني أتخولكم بالموعظة كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها؛ مخافة السآمة علينا»".

(كتاب العلم، ‌‌باب من جعل لأهل العلم أياما معلومة، 1/ 25،  الرقم: 70، ط: دار طوق النجاة)

فتح المغیث للسخاوی میں ہے:

"[ختم مجلس الإملاء بالحكايات والنوادر] :(واستحسن) للمملي (الإنشاد) المباح المرقق (في الأواخر) من كل مجلس (بعد الحكايات) اللطيفة (مع النوادر) المستحسنة، وإن كانت مناسبة لما أملاه من الأحاديث فهو أحسن، كل ذلك بالأسانيد، فعادة الأئمة من المحدثين جارية بذلك، وكثيرا ما ينشد ابن عساكر من نظمه، وكذا الناظم، وربما فعله شيخنا. وقد بوب له الخطيب في جامعه، وساق عن ابن عباس قال: «قرئ عند النبي صلى الله عليه وسلم قرآن، وأنشد شعر، فقيل: يا رسول الله، أقرآن وشعر في مجلسك؟ قال: (نعم) » . وعن أبي بكرة قال: «أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وعنده أعرابي ينشده الشعر، فقلت: يا رسول الله، القرآن أو الشعر؟ ! فقال: (يا أبا بكرة، هذا مرة وهذا مرة) » . وعن علي أنه قال: (روحوا القلوب وابتغوا لها طرف الحكمة) . وعن الزهري أنه كان يقول لأصحابه: هاتوا من أشعاركم، هاتوا من حديثكم ; فإن الأذن مجاجة، والقلب حمض. وعن كثير بن أفلح قال: آخر مجلس جالسنا فيه زيد بن ثابت تناشدنا فيه الشعر. وعن حماد بن زيد أنه حدث بأحاديث، ثم قال لنا: خذوا في أبزار الجنة، فحدثنا بالحكايات. وعن مالك بن دينار قال: الحكايات تحف أهل الجنة. وساق غيره عن ابن مسعود قال: القلوب تمل كما تمل الأبدان، فاطلبوا لها طرائف الحكمة. وعن ابن عباس أنه كان إذا أفاض في القرآن والسنن قال لمن عنده: أحمضوا بنا، أي: خوضوا في الشعر والأخبار".

(آداب المحدث، 3/ 269، ط: مكتبة السنة مصر)

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"أن ‌الأجير ‌الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة ، وإن لم يعلم كمن استؤجر شهرا للخدمة أو لرعي الغنم".

(كتاب الإجارۃ، باب إجارۃ العبد، 9/ 140، ط: دار الفکر لبنان)

فتاویٰ شامی میں ہے:

" وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل۔۔۔

(قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. وفي غريب الرواية قال أبو علي الدقاق: لا يمنع في المصر من إتيان الجمعة، ويسقط من الأجير بقدر اشتغاله إن كان بعيدا، وإن قريبا لم يحط شيء فإن كان بعيدا واشتغل قدر ربع النهار يحط عنه ربع الأجرة. (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".

(كتاب الإجارة، باب ضمان الأجير، 6/ 70، ط: سعید)

مجمع الانہر میں ہے:

"(و) ثاني النوعين (الأجير ‌الخاص) ‌وهو (‌من ‌يعمل ‌لواحد) قيد صاحب الدرر بقوله: عملا مؤقتا بالتخصيص، وقال: فوائد القيود عرفت مما سبق (ويسمى أجير وحد) أيضا (ويستحق) الأجير الخاص (الأجر بتسليم نفسه) أي الأجر (مدته) أي العقد سواء عمل أو لم يعمل مع التمكن بالإجماع."

(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة،، 2/ 390، ط: دار إحياء التراث العربي)

فتاوی محمود یہ میں ہے:

"سوال: تنخواہ دار مدرس اجیرِ خاص ہوتا ہے یا اجیر مشترک؟ اور انتفاع کے لیے مدرسہ نے جو چیزیں ان کے حوالہ کی ہیں، مثلا پنکھا وغیرہ، ان چیزوں کا وہ مدرس امین ہوتا ہے، یا شرعا اس کی کیا حیثیت ہوتی ہے؟

الجواب حامداً ومصلیاً: جب مدرس کے لیے اوقات متعین کردئیے گئے تو ان اوقات میں وہ اجیر خاص ہے، ان اوقات میں اس کو دوسرا کام اجارہ پر کرنا جائز نہیں، بغیر اجارہ کے معمولی مختصر سا کام جس پر عرفا چشم پوشی کی جاسکتی ہے کہ اس سے مدرسہ کے کام میں کوئی معتد بہ حرج نہ ہو، یا وہ ضروریات میں سے ہو، اس کی اجازت ہے، جیسے مثلا کوئی معمولی خط لکھ دیا، یا پیشاب پاخانہ کی ضرورت پیش آگئی۔ جو چیز یں اوقات درسِ میں استعمال کے لیے دی جائیں، مثلا : بچھانے کے لیے دری دی یا گدا یا پنکھا یا قلم وغیرہ، مدرس کو مدرسہ کے کام میں ان چیزوں کے استعمال کا حق ہوتا ہے، مگر امانت و دیانت کے ساتھ احتیاط سے استعمال کرے کہ خراب یا ضائع نہ ہوجائیں"۔

(كتاب الاجارة، باب الاجارة الصحيحۃ، 16/ 572، 573، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144501102739

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں