بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرس سفیر کا چندہ سے تنخواہ لینا


سوال

 مولانا مفتی زید صاحب زیدمجدہم ایک مدرسہ میں باتنخواہ مدرس ہیں، رمضان المبارک کی تعطیل کے موقع پر ذمہ داران مدرسہ کی ہدایت پر مالی فراہمی (چندہ) کا کام بھی انجام دیتے ہیں، صورت حال یہ ہے کہ مدرسہ میں تعطیل کے موقع پر اتنی رقم موجود نہیں ہوتی ہے کہ چندہ کنندگان کو سفر کے اخراجات اور رمضان المبارک کی تنخواہ وقت پر دے سکے؛ اس لیے رمضان کی تنخواہ شوال المکرم کے اواخر میں ملتی ہے، دوسری طرف رمضان و عید کی مناسبت سے اخراجات کا دوگنا ہونا بھی ظاہر ہے. اس وجہ کر مولانا موصوف چندہ کی رقم (جو زکوٰۃ کی مد کی ہوتی ہے) سے اپنی متعینہ تنخواہ اور اکرامیہ کے عنوان سے ملنے والی متوقع رقم وضع کرکے ذاتی ضروریات و اخراجات میں صرف کرتے ہیں پھر مابقیہ محصولہ رقم مدرسہ کو حوالہ کردیتے ہیں. دریافت طلب امر یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں زکوٰۃ کی محصولہ رقم مدرسہ کو حوالہ کئے بغیر مولانا موصوف کا اس طرح اس رقم سے پیشگی اپنی تنخواہ اور اکرامیہ کی متوقع رقم وضع کرکے اپنے اخراجات میں صرف کرنا ازروئے شرع جائز و درست ہے یا نہیں؟ مدلل و تشفی بخش جواب دے کر ماجور و مشکور ہوں. 

جواب

صورت ِ مسئولہ میں مدرس سفیر کا  زکات کی مد میں جمع کی گئی رقوم   سے  اپنی تنخواہ اور اکرامیہ لینا  شرعا ًجائز نہیں ۔

البحر الرائق میں ہے :

"وللوكيل بدفع الزكاة أن يدفعها إلى ولد نفسه كبيرا كان أو صغيرا، وإلى امرأته إذا كانوا محاويج، ولا يجوز أن يمسك ‌لنفسه ‌شيئا اهـ"

(کتاب الزکات،شروط اداء الزکات،ج:۲،ص:۲۲۷،دارالکتاب الاسلامی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں