بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرس پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟


سوال

1۔میرا سوال یہ ہے کہ کیا استاذ کو طالب علم کو سبق یا آموختہ کے لئے بلانا ضروری ہے کیوں کہ آج کل کے کچھ مدرسین کا کہنا ہے اگر طالب علم کی غرض ہوگی تو وہ خود آکر سنائے گا، مدرسین کا کہنا ہے کہ ہم کوئی غلام نہیں ہے جو بلائیں؟

2۔کیا مدرسین کی تنخواہ میں سے خوراکی فیس کاٹنا مدرسہ کی طرف سے جائز ہے؟

3۔حفظ کے اساتذہ کو مغرب،عشاء،فجر کے  بعد کی تنخواہ نہیں دیتے اگر مطالبہ کرتے ہیں تو مدرسہ والےکہتے ہیں  کہ مدرسہ جو کھانا کھلاتا ہے اسی میں نگرانی کی تنخواہ ہو جاتی ہے اور مدرسین سے خوراکی فیس نہیں لیتے ہیں تو کیا ان کا یہ کہنا جائز ہے؟

4۔ا ور اگر کوئی طالب علم پانچ یا چھ سال سے حفظ دور کر رہا ہے اور ابھی تک یاد بھی نہیں ہے اور ان کے والدین امید لگا کر بیٹھے ہیں مگر وہ طالب علم محنت بھی نہیں کرتا تو کیا ایسے طالب علم کو مدرسہ سے اخراج کر دینا چاہیے؟

قرآن وحدیث سے جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ 

جواب

  1. واضح رہے کہ طالب علم کی تعلیم  کی   ذمہ داری مدرس اور استاذ کی ہوتی ہے ،ان سے سبق سننا اور انہیں سبق یاد کروانا مدرس کی ذمہ داری ہے؛لہذا مدرس کا یہ کہنا کہ طالب علم آکر خود سبق سنائے گا ہم اس کو کیوں بلائے ایسا کہنا درست نہیں ۔
  2. مدرسین کی تنخواہ میں سے خوراک کی  رقم  کاٹنا اس وقت  جائز ہے  جب معاہدہ اس طرح ہوگیا ہو۔اسی طرح حفظ کے اساتذہ کی اگر مغرب عشاء اور فجر کے بعد ذمہ داری رکھی جائے تو ان کی رضامندی سے رکھی جائے۔
  3. حفظ کے اساتذہ کے ساتھ اگر پہلے سے یہ معاہدہ ہوا ہو کہ  فجر،مغرب،عشاء کے بعد کی نگرانی کے عوض کھانا فراہم کیا جائے گا  تو ان کا اس طرح کہنا  (کہ مدرسہ جو کھانا کھلاتا ہے وہ اس نگرانی کے عوض ہے) جائز ہوگا اور اگر پہلے سے ان کے ساتھ اس طرح کا معاہدہ نہیں ہوا تھا اور ویسے ہی ان سے نگرانی کروائی جائے اور بعد میں ان سے یہ کہاجائے تو یہ شرعا درست نہیں۔
  4. صورت ِ مسئولہ میں اگر مذکورہ طالب علم محنت نہیں کرتا  اور حفظ کے دورانیہ کو چھ سال ہوگئے تو مدرس کو چاہیے کہ وہ ان کے والدین کو حقیقت ِ حال سے آگاہ کرے اور اگر اس کے باوجود وہ سبق پر توجہ نہ دیں تو ادارہ سے اس کو نکالا جاسکتا ہے ۔

سنن دار قطنی میں ہے :

"عن عائشة رضي الله عنها ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «‌المسلمون ‌عند ‌شروطهم ما وافق الحق»."

(کتاب البیوع،ج:۳،ص:۴۲۷،موسسۃ الرسالۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100667

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں