بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرس کے لئے چندے کی رقم مدرسہ میں جمع کرائے بغیر، تنخواہ کی طور پر لینے حکم؟


سوال

 زید تین(۳ )سال سے مدرسہ میں پڑھا رہا تھا اچانک لوک ڈاؤن کیوجہ گھر آنا پڑا اب مدرسہ کے ذمہ دار نے ڈیڑھ ماہ کے بعد زید کو استعفیٰ دے دیا اور زید کے پاس مدرسہ کے تین(۳)ہزار روپیہ ہیں جس کا علم مدرسہ کے ذمہ دار کو بھی نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی صاحب نے مدرسہ کے نام کے پیسے دئیے تھے جو زید کے پاس ہی ہے اب معلوم یہ کرنا ہے زید کو وہ تین ہزار روپیہ مدرسہ میں دینے ہی ہونگے یا مدرسے والوں پر جو ڈیڑھ ماہ سے تنخواہ رکی ہوئی ہے تو زید اپنےڈیڑھ ماہ کی تنخواہ سے تین ہزار کاٹ کر بغیر مہتمم کو بتاۓ ہوۓ باقی پیسوں میں اپنے دل میں صدقہ کی نیت کرسکتاہے یا اسکو وہ تین ہزار مہتمم کو بتانے ہی ہونگے یا بغیر بتائے بھی کام چل جائیگا یا نہیں مدلل جواب دیں ۔

جواب

صورت مسئولہ میں یہ پیسے  زید کے پاس  امانت ہیں، اس کو مدرسے میں  جمع کرنا ضروری ہے، اس سے اپنی تنخواہ وصول کرنا جائز نہیں؛ کیونکہ زید پیسے دینے والے شخص کا وکیل ہے اور جب تک رقم وکیل کے پاس ہے اس وقت تک وہ مؤکل کی امانت ہے جب کہ زید مدرسے کی رقم تو روک سکتا ہے مگر مدرسے کی وجہ سے کسی اور کی رقم نہیں روک سکتا ہے۔

"لا يجوز للوكيل أن يتصرف إلا فيما جعل إليه".

(الجوهرة النيرة: كتاب  آداب القاضي، كتاب القاضي إلي القاضي (2/ 245)، ط.  المطبعة الخيرية، الطبعة الأولى: 1322هـ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407101893

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں