بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسین کی تنخواہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


سوال

مدرسین کی تنخواہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

واضح رہےکہ تعلیمِ قرآن (قرآن سکھانے اورپڑھانے)  اور اسی طرح دیگر دینی خدمات  کی اجرت لینے کو متأخرینِ احناف نے بوجۂ ضرورت جائز قرار دیا ہے،تفصیل  یہ ہے کہ  فقہائے متقدمین نے اس کو ناجائز قرار دیا تھا اور اس زمانہ میں  دین کے مختلف شعبوں میں کام کرنے والوں کا وظیفہ بھی بیت المال سے مقرر تھا؛ اس لیے یہ دینی امور منظم طریقے پرسر  انجام پاتے رہتے،لیکن جب بیت المال کا نظام باقی نہ رہا اور ان بنیادی امور میں بدنظمی اور بے ضابطگی کا احساس ہونے لگا توفقہائے متأخرین نے صرف اذا ن،امامت اور تدریس کے لیے اجرت لینے کی  اجازت دی اور اس اجازت  کا مقصد دین کی آبیاری اور اس کی بقا ہے ،چناں چہ  اگر کوئی شخص ان ہی طاعات میں اپنے آپ کو مشغول کرے تو اس شخص کے لیے اپنی حاجات و ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے دیگر ذرائع معاش کو اپنانا مشکل ہو جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر دیگر ذرائع معاش کو اپنائے گا تو پھر ان طاعات کو مستقل پابندی کے ساتھ بجالانا مشکل ، تو ایسے حالات میں اگر فقہائے متقدمین کے فتویٰ پر عمل کرتے ہوئے ان طاعات پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیاجائے، تو دین کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا،تو  بقائے دین کی خاطر فقہائے متاخرین نے یہ فتویٰ دیا کہ ایسے طاعات جن پر دین کی بقاء موقوف ہو ان پر اجرت لینا جائز ہے ، مثلاً امامت ، موذن، تدریس ، قضاء ، منصب افتاء ۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويفتى اليوم بصحتها لتعليم القرآن والفقه والإمامة والأذان .... وزاد بعضهم الأذان والإقامة ‌والوعظ .... ويجبر المستأجر على دفع ما قبل) فيجب المسمى بعقد وأجر المثل إذا لم تذكر مدة."

(كتاب الإجارة، ‌‌باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الإستئجار على الطاعات،55،56/6،ط: سعيد)

فتاویٰ بزازیہ میں ہے:

"ألاستئجار على الطاعات كتعليم القرآن، والفقه، والتدريس، والوعظ لايجوز، والمتأخرون على جوازه .... وفتوى علماءنا أن الإجارة إن صحت يجب المسمى، وإن لم تصح يجب أجر المثل .... والحيلة: أن يستأجر المعلم مدة معلومة ثم يأمره بتعليم ولده."

(كتاب الإجارة، نوع فى تعليم القرآن،37،38/5، ط: رشيدية)

البحر الرائق میں ہے:

"قال رحمه الله (‌والفتوى ‌اليوم ‌على ‌جواز ‌الاستئجار ‌لتعليم ‌القرآن) ، وهذا مذهب المتأخرين من مشايخ بلخ استحسنوا ذلك وقالوا بنى أصحابنا المتقدمون الجواب على ما شاهدوا من قلة الحفاظ ورغبة الناس فيهم؛ ولأن الحفاظ والمعلمين كان لهم عطايا في بيت المال وافتقادات من المتعلمين في مجازات التعليم من غير شرط، وهذا الزمان قل ذلك واشتغل الحفاظ بمعائشهم فلو لم يفتح لهم باب التعليم بالأجر لذهب القرآن فأفتوا بالجواز، والأحكام تختلف باختلاف الزمان."

(‌‌كتاب الإجارة،باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها، 10/8، دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504102352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں