میری ایک بہن ہے ،اس کا کوئی سرپرست نہیں ہے،اور نہ ان کا کوئی کمانے والا ہے،اس نے اپنے گھر میں ایک مدرسہ کھولا ہے،اور میرے پاس زکوۃ کی رقم ہےاور میری بہن صاحب نصاب بھی ہے،میں ان کو زکوۃ کی رقم سے کسی طرح وظیفہ دوں ،کیا تنخواہ ،بجلی کے کی مد میں زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے؟اس کا کیا طریقہ کار ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بہن صاحبِ نصاحب ہے تو سائل کے لیے جائز نہیں ہےکہ وہ اسے زکوٰۃ کی رقم دے، نیز سائل زکوٰۃ کی رقم تنخواہ یابجلی کی مد میں بھی نہیں دے سکتا۔
فتاویٰ شامی میں ہے :
"ولو دفعها المعلم لخلیفته إن کان بحیث یعمل له لو لم یعطه صح، و إلا لا،(قوله: وإلا لا )؛ لأن المدفوع یکون بمنزلة العوض."
(کتاب الزکوۃ،باب مصرف الزکوۃ،ج:2،ص:356،ط:سعید)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
"فهي تملیك المال من فقیر مسلم ... بشرط قطع المنفعة عن المملك من کل وجه."
(كتاب الزكوة،الباب الاول في تفسير الزكوة،ج:1،ص:170،ط:رشيديه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144401101383
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن