گواہ نہ ہونے كی صورت میں قرآن پكڑ کر اللہ کی قسم کھا سکتے ہیں؟ یا دوسرے شخص كو کھلا سکتے ہیں یا نہیں؟ شریعت میں گواہ نہ ہونے كی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
عام مقدمات میں جس شخص پر اپنے دعوی کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرنا لازم ہو، اگر اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو خود قرآن کی قسم کھانا یا کسی دوسرے سے قسم لینا اس کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ البتہ مدعی علیہ خود اقرار کرلے، یا قسم کھانے سے انکار کردے تو مدعی کا دعوی درست مانا جاتا ہے۔ اور اگر مدعی کے پاس گواہ نہ ہوں اور مدعی کے مطالبہ پرمدعی علیہ قسم کھا لے تو مدعی علیہ کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اور اگر قسم کھانے سے انکار کردے تو بھی دعوی ثابت ہوجائے گا۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 354):
والطريق فيما يرجع إلى حقوق العباد المحضة عبارة عن الدعوى والحجة: وهي إما البينة أو الإقرار أو اليمين أو النكول عنه أو القسامة أو علم القاضي بما يريد أن يحكم به أو القرائن الواضحة التي تصير الأمر في حيز المقطوع به.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 549):
(واليمين لا ترد على مدع) لحديث «البينة على المدعي» وحديث الشاهد واليمين ضعيف، بل رده ابن معين، بل أنكره الراوي عيني.
فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144201201105
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن