بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 ذو القعدة 1446ھ 15 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

مدعی علیہ کی ان شاء اللہ کے ساتھ کھائی ہوئی قسم معتبر ہے یا نہیں


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ حکم نے گواہ نہ ہونے کی وجہ سے مدعی کے مطالبہ پر مدعی علیہ کو قسم دی، مدعی علیہ نے قسم اٹھائی "ان شاء اللہ " کے الفاظ بھی کہہ دیے  مثلا یوں کہا کہ اللہ کی قسم مدعیہ نے مجھے دس ہزار روپے نہیں دیے تھے  ان شاء اللہ  اور حکم نے فیصلہ کردیا مدعی علیہ کی قسم کو معتبر مان کر۔

اب مدعی  زید کہتا ہے کہ یہ قسم معتبر نہیں، باطل ہے ، ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے یمین لغو ہوجاتی ہے اور دلیل میں عمومی عبارات کتب فقہ پیش کرتا ہے۔ جبکہ عمرو مدعی علیہ کہتا ہے کہ یہ یمین معتبر ہے ان شاء اللہ کی وجہ سے لغو نہیں ہوئی ہے، کیونکہ ان شاء اللہ تعلیقات انشاءات میں مؤثر ہوتا ہے جن کا تعلق مستقبل کے ساتھ ہے اور تعلیق کو قبول کرتے ہیں۔ ماضی کا واقعہ تعلیق کو قبول نہیں کرتا اور یمین مدعی علیہ سے ماضی پر   لی جارہی ہے۔ لہذا یہاں "ان شاء اللہ " عادۃ یا تبرکا ہوسکتا ہے تعلیقا نہیں اور تائید میں امام رافعی رحمہ اللہ کی اس عبارت کو پیش کرتا ہے:

"قال الرافعي :قوله (او معاملة كطلاق و اقرار الخ) لكن قال الراحمتي لو اقر و قال : ان شاء الله تعالي لا يبطل اقراره لان الاستثناء انشاء فلا يبطل الا الانشاءات ه"۔

(رد المحتار ج نمبر۵، ص نمبر ۵۴۸، کتاب الایمان ،ط:رشیدیہ) 

مفتیان کرام سے گزارش ہے فیصلہ فرمادیں کہ کس کا موقف درست ہے۔ 

جواب

واضح رہے کہ اللہ کی مشیت کے ساتھ  کلام کو معلق کرنے کے متعلق فقہی جزئیات میں مندرجہ ذیل احکام مذکور ہیں:

۱) کلام کو مشیت کے ساتھ معلق کرناامام ابو حنیفۃ رحمہ اللہ کے نزدیک تعلیق نہیں ہے بلکہ ابطال  کلام ہے یعنی ما قبل کے حکم کو باطل کردیتا ہے۔

۲)  اللہ کی مشیت کے ساتھ تعلیق جملہ خبریہ کو باطل کرتاہے چاہے وہ معنیً انشاء ہی کیوں نہ ہو۔اللہ کی مشیت کے ساتھ تعلیق  امر اور نہی کو باطل نہیں کرتی۔

۳) یمین اور حلف کے رکن کی شرط ہے کہ وہ استثناء سے خالی ہو یعنی ان شاء اللہ سے خالی ہو لہذا   حلف اور یمین کو اللہ کی مشیت کے ساتھ معلق کرنا یمین باطل کردیتا ہے۔ فقہاء نے یہ اصول مطلق بیان فرمایا ہے اس میں یمین غموس، لغو اور منعقدہ میں فرق نہیں کیا۔

لہذا صورت مسئولہ میں مدعی علیہ کا ان شاء اللہ کے ساتھ قسم کھانے کی وجہ سے  مدعی علیہ کا حلف  باطل ہوگیا تھا اور اس حلف پر مدعی علیہ کے حق میں فیصلہ دینا شرعا درست نہیں تھا۔ حکم کو چاہیے کہ دوبارہ مدعی علیہ سے قسم لے اور پھر قسم کھانے کی صورت میں اس کے حق میں فیصلہ کرے اور قسم نہ کھانے کی صورت میں مدعی کے حق میں فیصلہ کرے۔ 

نیز مدعی علیہ کا یہ کہنا کہ ان شاء اللہ صرف ان چیزوں میں موثر ہوگا جو انشاءات کے قبیل سے ہو اور ماضی کے امور میں ان شاء اللہ موثر نہیں ہوگا لہذا ماضی کے امور پر کھائی ہوئی قسموں پر معتبر نہیں ہوگا ، یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ:

۱) فقہاء نے جہاں ان شاء اللہ کے ساتھ قسم کے باطل ہونے کی بحث کی ہے وہاں یمین منعقدہ اور باقیوں میں فرق نہیں کیا بلکہ مطلق حکم بیان فرمایا ہے۔

۲) اللہ کی مشیت کے ساتھ تعلیق کے متعلق فقہاء نے صراحت کی ہے جملہ خبریہ کو یہ باطل کردیتی ہے اور قسم کے ساتھ جس  جملہ کو موکد کیا جاتا ہے وہ جملہ خبریہ ہوتا ہے اور جملہ خبریہ ماضی اورمستقبل دونوں ہوتا ہے۔

۳) تقریرات رافعی کی عبارت کے ذریعہ جو یہ استدلال پیش کیا گیا ہے کہ اقرار کو جب اللہ کی مشیت کے ساتھ معلق کیا جائے تو اقرار باطل نہیں ہوتا اور اقرار معتبر ہوتا ہے، پس جب اقرار ماضی کی خبر دیتا ہے اور ان شاء اللہ سے باطل نہیں ہوتا تو یہ بات ثابت ہوئی کہ ماضی کے امور کو ان شاء اللہ باطل نہیں کرتا ہے۔

یہ استدلال تام نہیں ہے کیونکہ اقرار کے متعلق شامی  اور دیگر کتب میں یہ ہی مذکور ہے کہ ان شاء اللہ کے ساتھ تعلیق کی وجہ سے اقرار باطل ہوجاتا ہے۔پس جب اقرار ماضی ہے اور ان شاء اللہ سے باطل ہوجاتا ہے تو پھر یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ان شاء اللہ ماضی میں موثر نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وصل بحلفه إن شاء الله بطل) يمينه (وكذا يبطل به) أي بالاستثناء المتصل (كل ما تعلق بالقول عبادة أو معاملة) لو بصيغة الإخبار ولو بالأمر أو النهي كأعتقوا عبدي بعد موتي إن شاء الله، لم يصح وبع عبدي هذا إن شاء الله لم يصح الاستثناء (بخلاف المتعلق بالقلب) كالنية كما مر في الصوم»

(قوله إن شاء الله) مفعول وصل (قوله عبادة) كنذر وإعتاق أو معاملة كطلاق وإقرار ط."

(کتاب الایمان،ج نمبر ۳، ص نمبر ۷۴۲، ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس الركن فخلوه عن الاستثناء نحو أن يقول إن شاء الله تعالى أو إلا أن يشاء الله أو ما شاء الله أو إلا أن يبدو لي غير هذا أو إلا أن أرى غير هذا أو إلا أن أحب غير هذا أو قال إن أعانني الله أو يسر الله أو قال بمعونة الله أو بتيسيره ونحو ذلك فإن قال شيئا من ذلك موصولا لم تنعقد اليمين وإن كان مفصولا انعقدت."

(کتاب الایمان،فصل فی شرائط رکن الیمین،ج نمبر ۳، ص نمبر ۱۵،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(يبطل) جميع (صك) أي مكتوب (كتب ‌إن ‌شاء ‌الله في آخره) وقالا آخره فقط وهو استحسان راجح على قوله فتح: واتفقوا على أن الفرجة كفاصل السكوت وعلى انصرافه للكل في جمل عطفت بواو وأعقبت بشرط، وأما الاستثناء بإلا وأخواتها فللأخير إلا لقرينة كله مائة درهم وخمسون دينارا إلا درهما فللأول استحسانا وأما الاستثناء بإن شاء الله بعد جملتين إيقاعيتين فإليهما اتفاقا وبعد طلاقين معلقين أو طلاق معلق وعتق معلق فإليهما عند الثالث وللأخير عند الثاني، ولو بلا عطف."

(کتاب القضاء، باب کتاب القاضی الی القاضی، ج نمبر ۵، ص نمبر ۴۵۴،ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو وصل إقراره بإن شاء الله تعالى) أو فلان أو علقه بشرط على خطر لا بكائن كإن مت فإنه ينجز. (بطل إقراره) بقي لو ادعى المشيئة هل يصدق؟ لم أره وقدمنا في الطلاق أن المعتمد لا فليكن الإقرار كذلك لتعلق حق العبد قاله المصنف

(قوله بطل إقراره) على قول أبي يوسف: إن التعليق بالمشيئة إبطال. وقال محمد: تعليق بشرط لا يوقف عليه، والثمرة تظهر فيما إذا قدم المشيئة فقال إن شاء الله أنت طالق عند أبي يوسف لا يقع لأنه إبطال. وقال محمد يقع لأنه تعليق فإذا قدم الشرط، ولم يذكر الجزاء لم يتعلق وبقي الطلاق من غير شرط كفاية ولو جرى على لسانه إن شاء الله من غير قصد وكان قصده إيقاع الطلاق لا يقع؛ لأن الاستثناء موجود حقيقة والكلام معه لا يكون إيقاعا عيني (قوله: لو ادعى المشيئة) أي ادعى أنه قال: إن شاء الله تعالى ح."

(کتاب الاقرار،باب الاستثناء و ما فی معناہ، ج نمبر ۵، ص نمبر ۶۰۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"الاستثناء اسم توقيفي قال تعالى {ولا يستثنون} [القلم: 18] أي لا يقولون إن شاء الله.

مطلب الاستثناء يثبت حكمه في صيغ الإخبار لا في الأمر والنهي

وللمشاركة في الاسم أيضا اتجه ذكره في فصل الاستثناء وإنما يثبت حكمه في صيغ الإخبار وإن كان إنشاء إيجاب لا في الأمر والنهي؛ فلو قال أعتقوا عبدي من بعد موتي إن شاء الله لا يعمل الاستثناء فلهم عتقه؛ ولو قال بع عبدي هذا إن شاء الله كان للمأمور بيعه. وعن الحلواني: كل ما يختص باللسان يبطله الاستثناء كالطلاق والبيع، بخلاف ما لا يختص به كالصوم لا يرفعه، لو قال نويت صوم غد إن شاء الله تعالى له أداؤه بتلك النية، كذا في الفتح؛ ومعنى قوله توقيفي أنه وارد في اللغة لا اصطلاحي فقط."

(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج نمبر ۳، ص نمبر ۳۶۶، ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكذا) يقع الطلاق بقوله (إن شاء الله أنت طالق) فإنه تطليق عندهما تعليق عند أبي يوسف لاتصال المبطل بالإيجاب فلا يقع كما لو أخر، وقيل الخلاف بالعكس، وعلى كل فالمفتى به عدم الوقوع إذا قدم المشيئة ولم يأت بالفاء، فإن أتى بها لم يقع اتفاقا كما في البحر والشرنبلالية والقهستاني وغيرها فليحفظ

(قوله فإنه تطليق إلخ) اعلم أن التعليق بمشيئة الله تعالى إبطال عندهما: أي رفع لحكم الإيجاب السابق وعند أبي يوسف تعليق، ولهذا شرط كونه متصلا كسائر الشروط.

ولهما أنه لا طريق للوصول إلى معرفة مشيئته تعالى فكان إبطالا، بخلاف بقية الشروط، وعلى كل لا يقع الطلاق في مثل أنت طالق إن شاء الله تعالى، نعم تظهر ثمرة الخلاف في مواضع.

منها ما إذا قدم الشرط ولم يأت بالفاء في الجواب، كإن شاء الله أنت طالق. فعندهما لا يقع لأنه إبطال فلا يختلف. وعنده يقع لأن التعليق لا يصح بدون الفاء في موضع وجوبها.

ومنها ما إذا حلف لا يحلف بالطلاق وقاله حنث على التعليق لا الإبطال كما يأتي، هذا ما قرره الزيلعي وابن الهمام وغيرهما، ومثله في متن مواهب الرحمن حيث قال: ويجعل: أي أبو يوسف إن شاء الله للتعليق وهما للإبطال وبه يفتي."

(کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج نمبر ۳، ص نمبر ۳۷۱، ایچ ایم سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا أقر الرجل فقال لفلان علي ألف ‌إن ‌شاء ‌الله تعالى قال أبو حنيفة - رحمه الله تعالى - الإقرار باطل وهذا استحسان كذا في المحيط......«ولو قال غصبت هذا العبد ‌إن ‌شاء ‌الله تعالى لم يلزمه شيء كذا في الخلاصة......ولو كتب عليه ذكر حق لفلان علي كذا وأجله إلى كذا ومن قام بذكر هذا الحق فهو ولي ما فيه ‌إن ‌شاء ‌الله تعالى لا يلزمه ما في الصك في قول لأبي حنيفة - رحمه الله تعالى - قياسا وعندهما يلزمه استحسانا كذا في المبسوط."

(کتاب الاقرار، باب ثانی، ج نمبر۴، ص نمبر ۱۶۱، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں