بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مدعی علیہ کے بجاۓ مدعی سے قسم لے کر کیے جانے فیصلے کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں میں ہماری قوم کی ایک زمین تھی،جس کو ہمارے دادا نے قیمتاً خریدا تھا،بعد میں بنگاخیل نامی قوم نے ہماری اس زمین پر یہ دعوی کیا کہ "یہ زمین ہماری ہے" اس پر گاؤں کے جرگے والوں نے  ہم  سےقسمیں کھانے کا کہا ،اور ہم نے چار قسمیں کھالیں،جس کے بدلے میں ہمیں ہماری زمین واپس مل گئی،پھر کئی سال بعد انہی لوگوں نے دوبارہ ہماری زمین پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا،اور ان کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت پر کسی قسم کے کوئی گواہ  وغیرہ نہیں تھے،جس پر جرگے والوں نے اس طرح فیصلہ کیاکہ ان لوگوں سے اپنے دعوے کے اثبات پر قسمیں کھانے کا کہا،جس پر ان میں سے پچاس آدمیوں نے یہ قسم کھائی کہ مذکورہ زمین ان کی ملکیت ہے،اس طرح ہماری  زمین ان لوگوں کو دے دی گئی، اور جرگے کے اس فیصلے کو ہماری قوم نے قبول کرلیااور آج تک اس پر قائم ہے،کیوں کہ جرگے کے فیصلے کو قبول کرنا ضروری ہوتا ہے،نیز یہ بھی واضح رہے کہ جرگے کا فیصلہ قومی رسم و رواج کی بناء پر کیا جاتا ہے،چاہے وہ رسم و رواج شریعت کے موافق ہو ں یا نہ ہوں۔

اب سوال یہ  ہے کہ کیا فریقِ مخالف کا قسم کھانا اور اس کی بنیاد پر زمین کا ان کے حق میں فیصلہ کیا جانا درست ہے؟

جواب

قانونِ شریعت  یہ ہے کہ جب مدعی کسی   شخص پر کوئی دعوی کرے،اور مدعا علیہ مدعی کے دعوے کا انکار کردے، تو مدعی  پر لازم ہے کہ  وہ اپنے دعوے کوگواہوں سے ثابت کرے اور جب گواہ موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا دعوی ثابت نہ کرسکے ، اور مدعا علیہ سے دعوی کے انکار پر حلف (قسم) لیناچاہے، تو مدعا علیہ پر حلف لازم ہے ، اگر مدعا علیہ انکارِ دعویٰ میں سچا ہے، تو قسم کھالے اور جب وہ قسم اٹھالے گا  ،تو مدعیِ کا دعویٰ ساقط ہوجائے گا اور اگر قسم نہیں اٹھائے گا تو دعویٰ ساقط نہ ہوگا،اور بہر صورت قسم مدعی علیہ ہی کے ذمے لازم ہوگی۔

 مذکورہ تفصیل کے بعدصورت مسئولہ میں   آپ کی زمین پر پہلی مرتبہ بنگا خیل نامی قوم کے دعوے کی صورت میں کیا جانے فیصلہ شرعاً درست تھا، لیکن  دوسری مرتبہ بنگا خیل نامی قوم کے دعوے کی صورت میں  جرگے کی جانب سے مدعی (بنگ خیل  قوم)سے ہی قسم لے کر اس کے مطابق فیصلہ کردینا شرعی اعتبار سے غلط ہے،اس لیے کہ شرعاً قسم مدعیٰ علیہ سے لی جاتی ہے، جب کہ مدعی  کے ذمے اپنے دعوے کے ثبوت  پر گواہ  پیش کرنا ہوتا ہے،لہٰذا  جرگے کا فیصلہ غلط ہے ،اور جرگے والوں پر لازم ہے کہ مذکورہ زمین آپ  لوگوں کو  واپس  دلائیں۔

درر الحکام میں ہے:

"(ولا ترد اليمين على المدعي وإن نكل خصمه) وعند الشافعي إذا لم يكن للمدعي بينة أصلا وحلف القاضي المدعى عليه فنكل ترد اليمين على المدعي فإن حلف قضي به وإلا انقطعت المنازعة بينهما لأن الظاهر صار شاهدا للمدعي بنكوله فيعتبر يمينه كالمدعى عليه وكذا إذا أقام المدعي شاهدا واحدا وعجز عن إقامة شاهد آخر فإنه ترد اليمين عليه فإن حلف قضي له بما ادعى وإن نكل لا يقضى له بشيء لأنه صلى الله عليه وسلم قضى بشاهد ويمين وعندنا يستحلف المدعى عليه فقط ويقضي عليه بالنكول لقوله صلى الله عليه وسلم «‌البينة ‌على ‌المدعي واليمين على من أنكر» ومطلق التقسيم يقتضي انتفاء مشاركة كل واحد منهما عن قسم صاحبه فيدل على أن جنس الأيمان في جانب المدعى عليه ولا يمين في جانب المدعي إذ اللام في اليمين للاستغراق فمن جعل الأيمان حجة للمدعي فقد خالف النص وحديث الشاهد واليمين غريب وما رويناه مشهور تلقته الأمة بالقبول حتى صار في حيز التواتر فلا يعارضه على أن يحيى بن معين قد رده كذا في الكافي."

(‌‌كتاب الدعوى،أركان الدعوی،333/2،ط:دار إحياء الكتب العربية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101041

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں