بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مبتدئہ بالنفاس کو چالیس دن سے زیادہ خون آئے تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک عورت کو بچہ جننے کے بعد (35) دن نفاس کا خون آیا پھر (13) دن پاکی رہی اس کے بعد (6) دن خون آیا پھر (10) دن پاکی رہی پھر (2) دن خون پھر (11) دن پاکی پھر (6) دن خون آیا۔

اس سلسلہ میں قابلِ غور امور یہ ہے:

(١) اس عورت کے لئے نماز ،روزوں کا کیا حکم ہوگا؟ وہ ایام حیض اور ایام طہر کون سے شمار کرے؟

(٢) اس کے لیے شریعت کا جو حکم ہو، کیا وہ حکم ایک کامل طہر تک رہے گا یا اپنی پرانی عادت تک رہے گا؟

نوٹ: یہ اس عورت کی پہلی مرتبہ ولادت کا معاملہ ہے ۔ ولادت سے پہلے اس کی عادت (24) دن طہر اور (6) دن حیض کی تھی ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ عورت کو پہلی مرتبہ نفاس آیا  ہے، اس سے پہلے اس کی کوئی عادت متعین نہیں تھی، اور 35 دن نفاس کے بعد خون مسلسل 48 دن جاری رہا ہے، اس لیے ابتداء کے 40 دن (35 + 5) نفاس شمار ہوگا، اس کے بعد استحاضہ ہوگا، اور اُس  میں حیض کی سابقہ عادت جاری ہوگی۔

 لہٰذا 35 دن کے بعد جو 48 دن ہیں، ان میں سے شروع کے  5 دن نفاس کے شمار ہوں گے، پھر اس کے بعد کے 24 دن طہرِ حکمی  ہوں گے، ان میں یہ عورت نماز اداکرے، پھر بقیہ 19 دن میں سے 6 دن حیض کے شمار ہوں گے، اُن  میں نما ز روزے نہیں پڑھے گی، اور بعد میں روزوں کی قضا کرے گی، پھر بقیہ 13 دن طہر ناقص ہے، لہٰذا ان دنوں میں نماز روزےاداکرے گی، قضاء نہیں کرے گی، اس کے بعد جب بھی خون آئے گا تو سابقہ عادت برقرار رہے گی اور 24 دن طہر اور 6 دن حیض شمار ہوگا۔

منهل الواردين من بحار الفيض على ذخر المتأهلين في مسائل الحيض میں ہے:

"(ولو ولدت) أي: المبتدأة (فانقطع دمها) بعد ساعة مثلا (ثم رأت آخر الأربعين) أي: في آخر يوم منها (دما فكله نفاس) لما مر في المقدمة أن الطهر المتخلل في الأربعين قليلا كان أو كثيرا كله نفاس؛ لأن الأربعين في النفاس كالعشرة في الحيض، وجميع ما تخلل في العشرة حيض فكذا في الأربعين).وإن انقطع في آخر ثلاثين، ثم عاد قبل تمام خمس وأربعينمن حين الولادة(فالأربعون نفاسلجواز ختمه بالطهر كالحيض، ويكون الدم الثاني استحاضة؛ لما مر أنه لا يتوالى حيض ونفاس، بل لا بد من طهر تام بينهما ولم يوجد ... ولا ينافي ذلك ما مر من أن الطهر لا يفصل بين الدمين في النفاس وإن كان خمسة عشر فأكثر؛ لأن ذلك فيما إذا كان كل من الدمين في مدة النفاس، وهنا الدم الثاني وقع بعد الأربعين. وحينئذ فإن كان الطهر تاما فصل، وإلا فلا، كما أوضحناه آخر المقدمة."

(النوع الثاني في الأصول والقواعد الكلية، الفصل الثاني أحكام المبتدئة والمعتادة، أحكام المبتدئة، ص: ١٧٨، ط: دارالفكر)

بہشتی زیور میں ہے:

"اگر خون چالیس دن سے بڑھ گیا، تو اگر پہلے پہل ہی بچہ ہوا تو چالیس دن نفاس کے ہیں اور جتنا زیادہ آیا ہے وہ استحاضہ ہے، پس چالیس دن کے بعد نہاڈالے اور نماز پڑھنا شروع کردے، خون بند ہونے کا انتظار نہ کرے۔"

(حصہ دوم، نفاس کا بیان، ص: ١٧٠، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101441

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں