بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں نقصان کی ذمہ داری کس پر ہو گی رب المال پر یا مضارب پر؟


سوال

ایک شخص نے دوسرے شخص کو مضاربت پر کاروبار کیلئے رقم دی ایک مقررہ وقت کیلئے پھر وہ رقم آگے جن کے ساتھ وہ مل کر کام کر رہے تھے جس کا علم پہلے شخص کو نہیں تھا، اس دوسرے ساتھی نے دھوکا اور فراڈ کیا وہ رقم لے کر فرار ہوگیا بہت کوششوں کے باوجود رقم نہ مل سکی تو کیا اب یہ رقم جن کے ساتھ پیسہ لگایا گیا مضاربت پر ان کے ذمہ یہ رقم ادا کرنا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  مذکورہ معاملہ عقد مضاربت کا  ہےاور "مضاربت" کے معاملہ میں اصول یہ ہے کہ اگر نقصان ہو جائے تو اس نقصان کو اولاً نفع سے پورا کیا جاتا ہے اگر نقصان نفع سے پورا  ہوجائے تو فبہا ورنہ اس  نقصان کی ذمہ داری رب المال ( انویسٹر ) پر عائد ہوتی ہے بشرطیکہ اس نقصان میں مضارب (عامل) کا کوئی دخل نہ ہو یعنی وہ نقصان مضارب کی غفلت، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوا ہو ۔اگر نقصان مضارب کے قصور اور تعدی کی وجہ سے ہوا ہو تو اس نقصان کی ذمہ داری صرف مضارب پر عائد ہوتی ہے۔

صورت مسئولہ میں اگر رب المال ( انویسٹر )نے مضارب(عامل) کو مطلقاً اجازت دی تھی اور مضارب کی صوابدید پر  چھوڑ دیا تھاکہ وہ جس طرح چاہے کام کرے ، آگے کام کی وجہ سے دوسرا شخص دھوکہ دے کر ساری رقم لے کر فرار ہو گیا  تو  مضارب نقصان کا ضامن نہیں ہو گا بلکہ نقصان اولاً مضاربت سے حاصل ہونے والے نفع سے پورا کیا جائے گا، اگر نفع سے پورا نہ ہو یا نفع بالکل ہی نہ ہوا ہو تو ایسی صورت میں نقصان  رب المال (انویسٹر) کا شمار ہو گا۔

اور اگررب المال (انویسٹر)  نے کاروبار کے لیے اس شرط کےساتھ رقم دی تھی کہ مضارب خود کاروبار کرے گا کسی اور کو شریک نہیں کرے گا، لیکن اس نے اس کے باوجود کسی اور کو بھی کاروبار میں شامل کیا  تو اسے مضارب کی غفلت شمار کیا جائے گا اور یہ  غفلت، تعدی  اور رب المال کی مخالفت شمار ہو گی  اور نقصان کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوگی۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي میں ہے: 

"قال - رحمه الله - (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح)؛ لأنه تابع ورأس المال أصل لتصور وجوده بدون الربح لا العكس فوجب صرف الهالك إلى التبع لاستحالة بقائه بدون الأصل كما يصرف الهالك العفو في الزكاة قال - رحمه الله - (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب)؛ لأنه أمين فلا يكون ضمينا للتنافي بينهما في شيء واحد".

(کتاب المضاربة، باب المضارب یضارب، ج: 5، ص: 67، ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة) 

مجمع الضمانات  میں ہے:

"ثم المدفوع إلى المضارب أمانة في يده لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه لا على وجه البدل والوثيقة، وهو وكيل فيه لأنه يتصرف فيه بأمر مالكه فإذا ربح فهو شريك فيه، وإذا فسدت ظهرت الإجارة حتى استوجب العامل أجر مثله، وإذا خالف كان غاصبا لوجود التعدي منه على مال غيره".

(مجمع الضمانات، المؤلف: أبو محمد غانم بن محمد البغدادي الحنفي (المتوفى: 1030هـ)، باب في مسائل المضاربة،الفصل الأول في المضاربة، ص: 303، ط:  دار الكتاب الإسلامي)

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وما هلك من مال المضاربة يصرف إلى الربح) ؛ لأنه تبع (فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن) ولو فاسدة من عمله؛ لأنه أمين (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس المال وما فضل بينهما، وإن نقص لم يضمن) لما مر".

(کتاب المضاربة، باب المضارب یضارب، فصل فی المتفرقات فی المضاربة، ج: 5، ص:656، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں