بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مبارات کا حکم


سوال

طلاقِ مبارات کا قرآن و حدیث میں کیا حکم ہے؟

جواب

"مُبَارَات" اور "خلع" کا حکم ایک ہی ہے، یعنی جس طرح خلع میں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق سے آزاد ہو جاتے ہیں، اسی طرح "مبارات" میں بھی میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق سے آزاد ہوجاتے ہیں۔

ابراہیم نخعی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: "خلع" طلاقِ بائن ہے، اسی طرح "ایلاء" اور "مبارات" بھی طلاقِ بائن ہیں۔

"مُبارات" کا یہ حکم فقہاءِ کرام نے تابعینِ کرام رحمہم اللہ کے اقوال سے لیا ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا تابعین رحمہم اللہ شرعی اَحکام سے متعلق اس طرح کی بات بغیر ثبوت کے نہیں کرتے، لہٰذا یقینًا اس کی اصل ان کے ہاں ثابت ہوگی۔

مصنف ابن أبي شيبة - ترقيم عوامة (5/ 95):

"ما قالوا في المبارأة تكون طلاقًا.

18649- حدثنا أبو الأحوص ، عن مغيرة ، عن إبراهيم قال : الخلع تطليقة بائن ، والإيلاء والمبارأة كذلك."

العناية شرح الهداية (4/ 233):

"قال: (والمبارأة كالخلع) المبارأة بفتح الهمزة مفاعلة من بارأ شريكه: إذا أبرأ كل واحد منهما صاحبه وترك الهمزة خطأ، وكذا في المغرب. والأصل في هذا الفصل أن المبارأة والخلع (كلاهما يسقط كل حق لكل واحد من الزوجين على الآخر مما يتعلق بالنكاح) كالمهر والنفقة الماضية دون المستقبلة لأن للمختلعة والمبارئة النفقة والسكنى ما دامت في العدة به صرح الحاكم الشهيد في الكافي ."

الفتاوى الهندية (1/ 488):

"ويسقط الخلع والمبارأة كل حق لكل واحد على الآخر مما يتعلق بالنكاح كذا في كنز الدقائق."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203201467

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں