بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

موبائل وغیرہ پر بے وضو قرآن کی تلاوت اور اسکرین یا ماؤس چھونے کا حکم


سوال

1۔کیا قرآن موبائل ائپلیکیشن میں یا آن لائن کمپیوٹر پہ بغیر وضو پڑھ سکتے ہیں؟ اس صورت میں ٹچ سکرین پہ ہاتھ لگنے کا کیا حکم ہے؟

2۔کمپیوٹر کی صورت میں ماوس پہ ہاتھ رہے گا؟ پلیز حوالہ کے ساتھ بیان کردیں

جواب

1۔موبائل میں دیکھ کر قرآنِ مجید پڑھنا جائز ہے، چوں کہ قرآنِ کریم کو دیکھ کر ہاتھ لگائے بغیر زبانی تلاوت کرنا جائز ہے، اس لیے موبائل فون میں دیکھ کر بے وضو قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا بھی جائز ہے، اگر اسکرین پر قرآن کریم کھلا ہوا ہو تو بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا بھی جائز ہے، البتہ اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، کیوں کہ جس وقت قرآنِ کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔

2۔کمپیوٹر پر قرآن پڑھنے کی صورت میں ماؤس پر ہاتھ رکھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔

خزانۃ المفتیین میں ہے::

"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". 

(كتاب الصلاة، فصل في قراءة القرآن، ص:٧٠٢، ط:جامعة الملك خالد السعودية)

فتاوی شامی میں ہے:

"و يحرم به أي بالأكبر وبالأصغر مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار...  إلا بغلاف متجاف غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر."

(كتاب الطهارة، سنن الغسل، ج:١، ص:١٧٣، ط:دار الفكر بيروت)

وفیہ ایضاً:

"(قوله ومسه) أي القرآن ولو في لوح أو درهم أو حائط، لكن لا يمنع إلا من مس المكتوب، بخلاف المصحف فلا يجوز مس الجلد وموضع البياض منه. وقال بعضهم: يجوز، وهذا أقرب إلى القياس، والمنع أقرب إلى التعظيم كما في البحر: أي والصحيح المنع كما نذكره ... (قوله إلا بغلافه المنفصل) أي كالجراب والخريطة دون المتصل كالجلد المشرز هو الصحيح وعليه الفتوى؛ لأن الجلد تبع له سراج."

(كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:١، ص:٢٩٣، ط:ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں