بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مباح عمل میں منکرات کی شمولیت کی صورت میں حکم


سوال

اگر کسی مباح عمل میں منکرات کی شمولیت کثرت سے ہوجاۓ، تو اس عمل کو چھوڑنا واجب ہے یا نہیں؟ منکرات سے مراد وہ کونسی چیزیں ہیں؟ اس کی بھی وضاحت فرمائیں۔

جواب

  ہر ایسے قولی یا فعلی   عمل کا صدور جس میں اللہ  کی رضا شامل نہ  ہو ،منکر کہلاتا ہے ۔

معارف القرآن میں منکر ات کا احاطہ حضر ت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے  اس طرح فرمایا ہے کہ "اسی طرح منکر میں تمام وہ برائیاں اور مفاسد داخل ہیں جن کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ  وسلم) کی طرف سے ناجائز قرار دینا معلوم و معروف ہے۔"

اور مباح عمل میں کسی بھی منکرکی شمولیت کی وجہ سےوہ مباح عمل شرعاً ممنوع ہوجاتاہے،بلکہ بدعت بن جاتا ہے،جس کا چھوڑنا لازم وضروری ہو جاتاہے ۔

وفي العقود الدرية  في الفتاوي الحامدية:

"‌كل ‌مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه."

(‌‌فائدة الاعتماد على ما وقع في كتبنا من العبارات الفارسية،ج:2،ص:333 ،ط:دارالمعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه ‌فمكروه."

(كتاب الصلوة ،باب صلوة المسافر ،ج:2،ص:120 ،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"صح عن ابن مسعود أنه أخرج جماعة من المسجد يهللون ويصلون على النبي - صلى الله عليه وسلم - جهرا وقال لهم " ما أراكم إلا ‌مبتدعين."

(كتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع ،ج:6،ص:398 ،ط:سعيد)

"فتح الباري لابن حجر"  میں ہے:

" قال بن المنير فيه أن المندوبات قد تقلب مكروهات إذا رفعت عن رتبتها لأن ‌التيامن ‌مستحب في كل شيء أي من أمور العبادة لكن لما خشي بن مسعود أن يعتقدوا وجوبه أشار إلى كراهته والله أعلم."

(قوله باب الانفتال والانصراف عن اليمين والشمال، ج:2،ص:338، ط:دار المعرفة)

 جامع العلوم والحكم لابن رجب حنبلي ؒ میں ہے:

"فقوله - صلى الله عليه وسلم -: «كلُّ بدعة ضلالة» من جوامع الكلم لا يخرج عنه شيءٌ، وهو أصل عظيم من أصول الدِّين، وهو شبيه بقوله: «مَنْ أحدَث في أمرِنا ما لَيس مِنه فَهو رَدّ»، فكلُّ من أحدث شيئاً، ونسبه إلى الدِّين، ولم يكن له أصلٌ من الدِّين يرجع إليه، فهو ضلالةٌ، ‌والدِّينُ ‌بريء منه، وسواء في ذلك مسائلُ الاعتقادات، أو الأعمال، أو الأقوال الظاهرة والباطنة.وأما ما وقع في كلام السَّلف مِنِ استحسان بعض البدع، فإنَّما ذلك في البدع اللُّغوية، لا الشرعية."

(‌‌الحديث الثامن والعشرون،ص:597 ،ط:دارابن كثير)

التعریفات للجرجانی میں ہے :

والمنكر: ما ليس فيه رضا الله من قول أو فعل، والمعروف ضده."

(باب المیم ،ص:234،ط:دار الكتب العلمية)

معارف القرآن میں ہے:

"اسی طرح منکر میں تمام وہ برائیاں اور مفاسد داخل ہیں جن کو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ناجائز قرار دینا معلوم و معروف ہے۔"(سورۃ آل عمران )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144503101346

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں