بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

28 شوال 1445ھ 07 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مؤذن کا چھٹیوں کے دنوں کی تنخواہ لینے اور تنخواہ میں اضافہ طلب کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص مسجدکا مؤذن ہے ، اس نے اپنے امام سے (جو مسجد کامتولی ہے) سالانہ پندرہ دن مطلقاً چھٹیوں کی بات کی ، جس کا وظیفہ نہ کاٹاجائے،اس پر امام صاحب نے کہا کہ اگر میں آپ کو چھٹیاں دوں گا،اور ا س کا وظیفہ نہیں کاٹوں گا، تو قیامت کے دن میری پکڑ ہوگی، آپ مفتیانِ کرام قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ بتلادیں کہ اس پر امام (متولی) کی پکڑ ہوگی یا نہیں ؟

دوسرامسئلہ یہ ہے کہ مسجد کی دیگر ضروریات کی طرح مؤذن کی تنخواہ میں اتنا اضافہ کرناکہ مؤذن کی ضروریات بآسانی پوری کرسکیں،جائز ہے ؟

مؤذن کی کیا کیاذمہ داریاں ہوتی ہے ، اس کی بھی وضاحت فرمادیں ۔

جواب

واضح رہے کہ مؤذن اور متولی مسجدکے درمیان معاہدہ کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے؛  کیوں کہ وہ وقت کاپابند ہوتاہے، اور  اجیرِ خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا ،تو اس   غیر حاضری کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   اس معاملہ کا  اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب مؤذن اپنی ذمہ داری نہ سنبھالے، تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے، یا جتنے دن وہ غیرحاضررہےاسی کے بقدر تنخواہ وصول نہ کرے ، لیکن  شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ  تنخواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر  کی صورت میں جو جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرلیں اس کی شرعاً بھی اجازت ہوگی۔

صورتِ مسئولہ میں مؤذن کا متولی مسجد(امام) سے یہ معاہدہ طےکرناکہ وہ سالانہ پندرہ دن مطلقاً چھٹی کرےگا،جس کا وظیفہ نہیں کاٹاجائےگا،شرعاً درست ہے ،اور مذکورہ معاہدہ کی پاسداری مؤذن پرلازم ہوگی،اور اس صورت میں متولی مسجد (امام) پر مؤذن کو معاہدہ کے ایام کی چھٹی کی تنخواہ دینے پرکسی قسم کا گناہ بھی نہیں ہوگا،اوراگرمتولی مسجد(امام) ان کے متبادل کو رکھے ،تو متبادل کی تنخواہ مقررہ مؤذن  کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے نہیں دی جائے گی،البتہ اگر مؤذن معاہدہ کی خلاف ورزی کرلے،اوربغیراطلاع کے مقررہ ایام سے زائد چھٹی کر لے ،تو اس صورت میں مؤذن زائد چھٹی کے ایام کی تنخواہ کا مستحق نہیں ہوگا،تاہم اگر متولی مسجد(امام)پھربھی مؤذن کو زائد ایام کی تنخواہ دے دے ، تو یہ ان کی طرف سے تبرع شمار کیاجائےگا،اور مؤذن کے لیےلینادرست ہوگا۔

2- مؤذن کی ضروریات کے پیشِ نظر مؤذن کی تنخواہ میں اتنا اضافہ کرنا جس سے اس کی ضروریات بآسانی پوری ہوسکے جائزاورمستحسن  ہے۔

3- مؤذن کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بروقت اذان واقامت ادا کرے ،البتہ چوں کہ ہر مسجدکی کمیٹی  کے قواعد وضوابط مختلف ہوتے ہیں ،لہذامسجد کی کمیٹی اور مؤذن کے درمیان کام کے سلسلے میں جو معاہدہ طے ہوجائے،اسی معاہدہ کے مطابق جانبین کا اپنی اپنی ذمہ داری پوری کرنا واجب ہے،  مؤذن کی ذمہ دای یہ ہے کہ وہ اپنےکام کو بخوبی انجام دے ،اور مسجد کی کمیٹی پر لازم ہے کہ وہ بلا معاوضہ مؤذن سے طے شدہ معاہدہ سے زیادہ کام نہ لے ،بصورتِ دیگر عنداللہ سخت گناہ گار ہوں گے۔ 

قرآنِ کریم میں ہے:

"یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬اُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰى عَلَیْكُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌؕ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ."

(سورۃ المائدہ؛1) 

سنن ترمذی میں ہے:  

"عن عمرو بن عوف المزني عن أبیه عن جده رضي اللّٰه عنه أن رسو ل اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم قال: الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحًا حرّم حلالاً أو أحلّ حرامًا، والمسلمون علی شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حرامًا".

(أبواب الأحکام ، باب ما ذکر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم في الصلح بین الناس ، ج : 1 ص : 251 ط : بیروت)

الدر المختار میں ہے:

"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا."

(کتاب الإجارۃ ، باب ضمان الأجیر،ج : 6 ، ص:72 ، ط : سعید)

وفیہ ایضاً:

"استأجر حماما وشرط حط أجرة شهرين للعطلة، فإن شرط حطه قدر العطلة صح."

 (کتاب الإجارۃ، شروط الإجارة ج : 6 ص : 44 ط:سعید)

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’لیکن شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ اپنے معاملہ میں جس قدر امام کی چھٹی بلاتنخواہ اور جس قدر مع تنخواہ چاہیں، رضامندی سے طے کرلیں، کسی خاص بات پر مجبور نہیں کیا۔‘‘

(فتاویٰ محمودیہ  23 / 288 ط:ادارۃ الفاروق کراچی)  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100128

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں