بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

متعین مال سے حج بدل کی وصیت کرنا


سوال

میری ساس کاانتقال ہوچکاہے ، انہوں نے اپنی بیٹی کےپاس تقریباڈھائی لاکھ روپے رکھوائے تھے اورکہاتھاکہ میرے مرنے کے بعداس سے حج بدل کروادینا، اوراب تک وہ پیسے ویسے ہی رکھے ہوئے ہیں، تواب ان پیسوں کاکیاحکم ہے ؟ کیااب بھی ان پیسوں سےحج کرانالازم ہے ؟

وضاحت: میری ساس نے پہلے حج نہیں کیاتھا۔اورکیاان پیسوں کوکہیں صدقہ جاریہ میں لگاسکتے ہیں؟ یاوراثت میں تقسیم ہوں گے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعی نقطہ نظرسےعام حالات میں حج بدل میں  وصیت کرنے والے کے وطن سے حج بدل کرواناضروری ہوتاہے ، لیکن اگروصیت کرنے والے نے خودکچھ مال متعین کردیاہواوراس  مال سے اس کے وطن سے حج بدل ممکن نہ ہوتوجہاں سے حج بدل کراناممکن ہووہاں سے حج بدل کرواناضروری ہے ۔

لہذاصورت مسئولہ میں سائل کی ساس نے جس رقم سے حج بدل کی وصیت کی ہے(بشرط یہ کہ وہ رقم مرحومہ کے ترکہ کے ایک  تہائی میں سےہو)تو  اگراس کے وطن سے حج بدل کراناممکن ہوتووہاں سے ورنہ جہاں سےحج بدل کراناممکن ہووہاں سے حج بدل کروانالازمی ہے ،مذکورہ  رقم کوکسی اورکارِ خیر میں خرچ کرنایاوراثت میں تقسیم کرناجائز نہیں ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(‌فإن ‌فسر ‌المال) أو المكان (فالأمر عليه) أي على ما فسره (وإلا فيحج) عنه (من بلده).

وفی الرد:قوله فالأمر عليه) أي الشأن مبني على ما فسره أي عينه، فإن فسر المال يحج عنه من حيث يبلغ، وإن فسر المكان يحج عنه منه ح. قلت: والظاهر أنه يجب عليه أن يوصي بما يبلغ من بلده إن كان في الثلث سعة، فلو أوصى بما دون ذلك أو عين مكانا دون بلده يأثم لما علمت أن الواجب عليه الحج من بلد يسكنه."

(ردالمحتار علی الدرالمختار ،کتاب الحج ، باب الحج عن الغیر 2/ 504، 605 ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں