بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو باغی سمجھنے والے سے نکاح کا حکم


سوال

ایک شخص ہے جو تمام صحابہ کو مانتا ہے لیکن حضرت امیر معاویہ کو کاتب وحی نہیں مانتا،اس کا کا کہنا ہے کہ حضرت امیر معاویہ کے کارنامے ٹھیک نہیں تھے۔ان کا تعلق ایک باغی قوم سے تھا۔اس میں وہ عمار بن یاسر کی حدیث پیش کرتا ہے۔ کیا ایسے شخص سے نکاح ٹوٹ جائے گا؟نکاح کے وقت نہیں پتا تھا کہ اس کی ایسی سوچ ہے۔

جواب

واضح رہے کہ اہل سنت و الجماعت  کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ  کرام رضی اللہ عنہم اجمعین( بشمول معاویہ رضی اللہ عنہ) عدول ہیں  اور اللہ تعالی  ان حضرات سے راضی ہونے کا پروانہ ان کو دنیا میں دے چکے ہیں۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آپس کے اختلاف کے بارے میں اہلِ  سنت و الجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ ان واقعات پر ایک مسلمان کو تبصرہ  نہیں کرنا چاہیے اور صحابہ کے درمیان فیصل نہیں بننا چاہیے، بلکہ  سکوت اختیار کرنا چاہیے اور ان واقعات کو اجتہادی خطا پر محمول کرنا چاہیے،  یعنی دونوں فریق کو دین کی بہتری اور سر بلندی  مطلوب تھی  اور اسی میں ایک فریق سے اجتہادی خطا ہونے  کی وجہ سے اختلاف کی نوبت آئی؛  لہذا  کسی صحابی پر طعن نہیں کرنا چاہیے  اور  جب ان سب اختلاف کے باوجود اللہ  ان سے راضی ہے تو  ان کے متعلق بد کلامی کر کے اپنی آخرت کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔

لہذا  صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ  نظریہ رکھنے والا شخص گمراہ اور بدعتی ہے، کافر نہیں ہے؛  لہذا اس شخص سے نکاح نہیں ٹوٹے گا، البتہ اس کو سمجھایا جائے،  وہ اگر اس گمراہ نظریہ سے توبہ کرلے تو بہت اچھی بات ہے،  ورنہ  پھر مذکورہ شخص کی بیوی کو چاہیے کہ اس سے طلاق کا مطالبہ کر کے علیحدہ ہوجائے؛  تاکہ اس شخص کی بدعت اور گمراہی سے خود کو اور اولاد کو بچا سکے۔

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا محمد بن يحيى قال: حدثنا أبو مسهر، عن سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن عبد الرحمن بن أبي عميرة، وكان من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لمعاوية: اللهم اجعله هاديًا مهديًا واهد به.
هذا حديث حسن غريب."

(ابواب المناقب ج نمبر ۶ ص نمبر ۱۶۹، دار الغرب الاسلامی)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"وعن عبد الله بن مغفل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الله الله في أصحابي لا تتخذوهم غرضا من بعدي فمن أحبهم فبحبي أحبهم ومن أبغضهم فببغضي أبغضهم ومن آذاهم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذى الله ومن آذى الله فيوشك أن يأخذه» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب."

(کتاب المناقب و الفضائلباب مناقب الصحابہ ج نمبر ۹ ص نمبر ۳۸۸۰، دار الفکر)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا رأيتم الذين يسبون أصحابي فقولوا: لعنة الله على شركم. رواه الترمذي"

(کتاب المناقب و الفضائلباب مناقب الصحابہ ج نمبر ۹ ص نمبر ۳۸۸۱، دار الفکر)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"وعن عمر بن الخطاب قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " سألت ربي عن اختلاف أصحابي من بعدي فأوحى إلي: يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضها أقوى من بعض ولكل نور فمن أخذ بشيء مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي على هدى " قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أصحابي كالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم» . رواه رزين."

(کتاب المناقب و الفضائ، باب مناقب الصحابہ ج نمبر ۹ ص نمبر ۳۸۸۲، دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"لما في الاختيار اتفق الأئمة على تضليل أهل البدع أجمع وتخطئتهم وسب أحد من الصحابة وبغضه لا يكون كفرا، لكن يضلل إلخ. وذكر في فتح القدير أن الخوارج الذين يستحلون دماء المسلمين وأموالهم ويكفرون الصحابة حكمهم عند جمهور الفقهاء وأهل الحديث حكم البغاة. وذهب بعض أهل الحديث إلى أنهم مرتدون. قال ابن المنذر: ولا أعلم أحدا وافق أهل الحديث على تكفيرهم، وهذا يقتضي نقل إجماع الفقهاء. وذكر في المحيط أن بعض الفقهاء لا يكفر أحدا من أهل البدع. وبعضهم يكفرون البعض، وهو من خالف ببدعته دليلا قطعيا ونسبه إلى أكثر أهل السنة، والنقل الأول أثبت وابن المنذر أعرف بنقل كلام المجتهدين، نعم يقع في كلام أهل المذهب تكفير كثير ولكن ليس من كلام الفقهاء الذين هم المجتهدون بل من غيرهم، ولا عبرة بغير الفقهاء، والمنقول عن المجتهدين ما ذكرنا اهـ."

(کتاب الجہاد ج نمبر ۴ ص نمبر ۲۳۷،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں